کیا شمالی کینرا سے شیورام ہیبار کے لئے وزارت کا قلمدان محفوظ رکھا گیا ہے؟
کاروار 21/اگست (ایس او نیوز) کرناٹکاکے وزیراعلیٰ ایڈی یورپا نے دو دن پہلے اپنی کابینہ کی جو تشکیل کی ہے اس میں ریاست کے 13اضلاع کو اہمیت دیتے ہوئے وہاں کے نمائندوں کو وزارتی قلمدان سے نوازا گیا ہے۔اور بقیہ 17اضلاع کو ابھی کابینہ میں نمائندگی نہیں دی گئی ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ جنوبی کینرا، اڈپی اور شمالی کینرا جیسے تین اضلاع سے بی جے پی کے 16اراکین اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔ اورپورے ساحلی علاقے سے صرف کوٹا سرینواس پجاری کو وزیر بنایاتے ہوئے 15اراکین کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ اس سے خاص کرکے جنوبی کینرا اور اڈپی ضلع میں بی جے پی کارکنان اور لیڈران کے اندر بے اطمینانی دکھائی دے رہی ہے۔خیال رہے کہ ساحلی علاقے کے اڈپی ضلع میں سب سے زیادہ بی جے پی کے اراکین اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔یہاں سے ہالاڈی سرینواس شیٹی کو وزارت نہیں دئے جانے پر ان کے حامیوں کے اندر بہت زیادہ برہمی پیدا ہوگئی ہے۔
کیا شیورام ہیبار کے لئے وزارت محفوظ ہے؟: سیاسی گلیاروں میں یہ بات سنائی دے رہی ہے کہ ضلع شمالی کینرا سے وزارتی قلمدان کانگریس پارٹی سے بغاوت کے الزام میں نااہل قرار پانے والے رکن اسمبلی شیورام ہیبار کے لئے محفوظ رکھا گیا ہے۔کیونکہ کابینہ کی تشکیل سے قبل ہی یہاں کے سینئر بی جے پی لیڈر وشویشور ہیگڈے کاگیری کو اسپیکر کا عہد ہ دیا جاچکا ہے۔ اور اب شمالی کینرا کا کوٹا سپریم کورٹ کے فیصلے تک محفوظ رکھا گیا ہے تاکہ سپریم کورٹ سے باغی اراکین کو اسپیکر رمیش کمار کی طرف سے نااہل قرار دئے جانے کا فیصلہ اگر باطل ثابت ہوتا ہے تو پھر شیورام اور ان کے علاوہ دیگرکچھ مقامات پر باغی اراکین کو وزارتی قلمدانوں سے نوازا جا سکے۔لیکن یہاں پر بی جے پی کے ٹکٹ پر کمٹہ حلقے سے دوسری مرتبہ اپنی جیت درج کرنے والے دینکر شیٹی بھی موجود ہیں اور فطری طورپر وہ بھی وزارت کے طلب گاروں میں موجود رہیں گے۔
ساحلی پٹی سے جن اراکین اسمبلی کو کابینہ میں شامل نہیں کیا گیا ہے ان کے بارے میں گمان یہ کیا جارہا ہے کہ آئندہ مزید 16قلمدانوں کے لئے جب کابینہ میں توسیع کی جائے گی تو انہیں شامل کرلیا جائے گا۔ لیکن وزیر اعلیٰ کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ وزارت کے امیدواروں کی تعداد بقیہ قلمدانوں سے دگنی ہے۔ ایسی صورت میں پارٹی میں پہلے موجود اراکین اسمبلی اور کانگریس اور جنتا دل سے بغاوت کرکے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرنے والے اراکین کی کشمکش بہت زیادہ ہوسکتی ہے اور وزیراعلیٰ یا پارٹی ہائی کمان کے لئے سب کو مطمئن کرنا کسی طور بھی ممکن نظر نہیں آتا۔