پشاور ہائی کورٹ کو فیصلہ سنانے سے نہیں روک سکتے
اسلام آباد /10مارچ (آئی این ایس انڈیا)پاکستان کی سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے 71 ملزمان کی بر بریت کے خلاف وزارت دفاع کی اپیل پر سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی طرف سے پشاور ہائی کورٹ کو 200 درخواستوں پر فیصلہ سنانے سے روکنے کی استدعا کو مسترد کر دیا ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کو فیصلہ سنانے سے نہیں روک سکتے۔فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے ملزمان کی بربریت کیخلاف کیس کی سماعت جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کر رہا ہے۔سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالت کا ٹرائل کا اپنا طریقہ کار ہے اور آرمی ایکٹ میں فوجی عدالت سے سزا کے خلاف اپیل کا طریقہ کار بھی قانون میں موجود ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ فیصلوں میں ضابطہ فوجداری قوانین سے مطابقت ہوتی ہے۔جسٹس مشیر عالم نے سماعت کے دوران استفسار کیا کہ ملزمان کن جرائم میں ملوث ہیں اور کب یہ جرائم ہوئے۔جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ 71 اپیلیں ہیں اور ہر ملزم پر علیحدہ الزام ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے میں نہ قانون کو مدنظر رکھا گیا اور نہ ہی حقائق کو۔انہوں نے کہا کہ بعض کیسز میں تحقیقات اور ٹرائل کے دوران ملزمان کو بری بھی کیا جاتا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا ملزمان کے اعترافی بیان کے علاوہ کوئی شواہد ہیں۔سماعت کے دوران جسٹس منیب کا کہنا تھا کہ صرف ایف آئی آر اور اعتراف جرم کوئی شواہد نہیں ہیں۔ ملٹری قواعد میں جرم تسلیم کرنا قبول نہیں کیا جاتا۔جواب میں ساجد الیاس بھٹی کا کہنا تھا کہ کورٹ مارشل میں جرم تسلیم کرنے پر فوری سزا سنائی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ کم از کم حراستی مراکز کے آفیسر کا بیان ضرور ریکارڈ پر موجود ہوتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ فوجی عدالتوں سے عدم شواہد پر پانچ ملزمان بری بھی ہوئے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بظاہر ملزمان کے خلاف اقبال جرم کے علاوہ کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزمان سے ہونے والی ریکوری کی تفصیلات بھی موجود ہیں۔ اس کیس میں عدالت خصوصی حالات کو بھی مدنظر رکھے۔