بس اللہ ہی بچائے کاشی اور متھرا مساجد۔۔۔۔ از: ظفر آغا

Source: S.O. News Service | Published on 22nd May 2022, 1:32 PM | اسپیشل رپورٹس |

پھر وہی مندر مسجد قضیہ، پھر وہی ہندو مسلم تکرار، کیونکہ راقم الحروف نے سن 1986 میں بابری مسجد کا تالا کھولنے کے بعد سے سن 1992 میں بابری مسجد کے ڈھائے جانے تک پورے معاملات بطور ایک صحافی اتنے قریب سے دیکھے اور رپورٹ کئے کہ اب گیان واپی مسجد وارانسی اور متھرا عید گاہ کے سلسلہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کو دیکھ کر محسوس ہو رہا ہے کہ گویا ایک پرانی فلم پھر دیکھ رہے ہیں۔ جیسےایودھیا میں سب کچھ عدالتوں کے کاندھوں پر سوار ہو کر ہوا بے عین ہو وارانسی اور متھرا میں بھی سب کچھ عدالتوں کے ذریعے ہی ہو رہا ہے۔

سپریم کورٹ نے گیان واپی مسجد کے معاملہ میں وہی فیصلہ دیا ہے جو رام للا کے پرکٹ ہونے کے بعد ایودھیا کی عدالت نے دیا تھا۔ نماز جاری رہے گی لیکن جہاں پر شیو لنگ ملا ہے اس جگہ کو محفوظ رکھا جائے۔ بابری مسجد میں بھی سن 1960 کی دہائی تک نماز ہوتی رہی۔ پھر سن 1992 میں آخر مسجد گرا دی گئی۔ آخر میں سپریم کورٹ نے ایودھیا معاملہ میں مسلم فریقین کو تقریباً تمام باتیں تسلیم کیں لیکن فیصلہ ہندو فریقین کے حق میں ہوا۔

عقل مند کے لئے اشارہ کافی ہے! عدالتوں کے رویہ سے صاف ظاہر ہے کہ وارانسی اور متھرا مساجد کے معاملہ میں کیا ہوگا۔ سپریم کورٹ سپریم ہے اور سپریم رہے گا لیکن یہ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ گیان واپی والے معاملہ میں سن 1990 کا جو قانون ہے کہ ایودھیا کے علاوہ 15 اگست 1947 کو ملک بھر کی عبادت گاہوں کی جو صورت حال ہے اس میں کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں ہوگی، جو کچھ ہو رہا ہے اسے اس قانون کے تحت روکتا کیوں نہیں! عرض کیا نا کہ سپریم کورٹ سپریم ہے اور اس کے ہر فیصلہ کے آگے سر باصد احترام تسلیم خم ہے۔ لیکن ایودھیا کی طرح کاشی اور متھرا مساجد کا معاملہ بھی محض عقیدے سے نہیں بلکہ سیاست سے بھی گہرائی سے جڑا ہے۔

اس پس منظر میں اگر گیان واپی اور متھرا عید گاہ پر ہونے والے ہنگامےپر نگاہ ڈالیں تو صاف ظاہر ہے کہ نریندر مودی سمیت پورا سنگھ پریوار سن 2024 میں ہونے والے لوک سبھا چناؤ کاشی متھرا کے نام پر ہی لڑنے والے ہیں۔ یعنی نفرت کی ہانڈی کی آگ چناؤ تک تیز سے تیز ہوتی جائے گی۔ اس بار مودی جی اورنگ زیب (مسلم فریق) کے خلاف شیو اجی (ہندو فریق) کا روپ لے کر کاشی اور متھرا کی مساجد کو مسلمانوں کے ہاتھو سے چھین کر ہندو عقائد کی برتری قائم کریں گے۔ بابر ی مسجدسے لے کر ابھی حالیہ یوپی اور دیگر ریاستوں میں ہونے والے چناؤ کے نتائج شاہد ہیں کہ بی جے پی کے لئے مندر مسجد کی حکمت عملی انتہائی کامیاب رہتی ہے۔ مودی جی سن 2024 میں پھر ایک بار ہندو ہردے سمراٹ کا روپ کیوں نہ لیں! الغرض یہ طے ہوگیا ہے کہ اگلا لوگ سبھا چناؤ بھی ہندو مسلم تکرار کی گونج میں ہی ہوگا۔ اس کے علاوہ بی جے پی کے پاس کوئی دوسرا چارہ نہیں ہے۔ کیونکہ عام ہندو ملک کے معاشی بحران سے حیران و پریشان ہے۔ مہنگائی آسمان چھو رہی ہے۔ بے روزگاری کا سیلاب چل رہا ہے۔ ہر کس و ناکس پریشان ہے۔ بی جے پی کو ایک ایسا ایشو درکار ہے جس کے چلتے رہنے سے عام ہندو اپنی معاشی پریشانی بھول کر مسلمان کو ’ٹھیک‘ کرنے کی فکر میں لگا رہے۔ کاشی اور متھرا مساجد کے معاملوں سے بڑھ کراور کون سا ایشو ہوسکتا ہے جو ہندو عوام کو دھرم کے نشے میں مست رکھے اور وہ اپنی پریشانیاں بھول کر آخر بی جے پی کو مندر کے نام پر ووٹ ڈال دے۔

اب اس صورت حال میں مسلم فریق کی کیا حکمت عملی ہونی چاہیے! عدالتوں کے رویہ سے ظاہرہے کہ ان کا فیصلہ کیا ہو سکتا ہے۔ اب بچی بات سڑکوں کی تو بابری مسجد معاملے میں بابری  مسجد ایکشن کمیٹی بڑے بڑے جلسے و جلوس کر کے دیکھ چکی ہے۔ یہ حکمت عملی بی جے پی کو مدد کرنے والی حکمت عملی ہے۔ اس سے ہندو ردعمل پیدا ہوتا ہے اور پھر فسادات کی آگ بڑھکتی یا بھڑکائی جاتی ہے۔ آخر جو بی جے پی چاہتی ہے وہی ہوتا ہے، یعنی مسلمان عام ہندو کی نگاہ میں اس کا دشمن ہو جاتا ہے اور اس دشمن کو ہرانے کے لئے ہندو ووٹ بینک شدومد سے بی جے پی کی جھولی ووٹ سے بھر دیتا ہے۔ اس لئے یہ سمجھ لیجیے کہ جو مسلم لیڈر یا تنظیم کاشی، متھرا کی سیاست اور بیان بازی شدت سے کر رہی ہے وہ یا تو نا سمجھ ہے یا پھر وہ بی جے پی کے اشارے پر ایسا کر رہی ہے۔ اب کیجیے تو کیجیے کیا، کچھ بھی ہو عدالت کا رخ ہی کرسکتے ہیں۔ لیکن مسلم قائدین کے آئے دن پریس بیان، ٹی وی پر مسلم پارٹی کی جانب سے شرکت، سڑکوں پر جلسے جلوس ان تمام طریقوں سے بی جے پی کا ہی بھلا ہے۔ نہ تو خود ان چکروں میں پڑئیے اور نہ ایسا کرنے والوں کے بہکاوے میں آئیں۔ راقم یہ لکھتا رہا ہے کہ موجودہ صورت حال میں ہندوستانی مسلمان کے پاس رسول کریمؐ کی مکّی دور کی صبر کی حکمت عملی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ صبر سے کام لیجیے، حالات انتہائی ناسازگار ہیں، کسی بھی قسم کا اشتعال یعنی بلڈوزر سے روندا جانا اور ہندو ردعمل کا شکار ہونا ہے۔ بابری مسجد تو گئی، اب اللہ ہی کاشی اور متھرا کی حفاظت کرسکتا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے بس میں ان مساجد کا تحفط نہیں ہے، صبر اور صرف صبر سے کام لیجیے۔

ایک نظر اس پر بھی

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...