منگلورو: قانونی پابندی کے باوجود دستیاب ہیں ویڈیو گیمس. نئی نسل ہو رہی ہے برباد۔ ماہرین کا خیال
منگلورو، 6؍ اپریل (ایس او نیوز) ویڈیو گیم میں ہار جیت کے مسئلہ پر منگلورو میں ایک نوعمر لڑکے کے ہاتھوں دوسرے کم عمر لڑکے عاکف کے قتل کے بعد ویڈیو گیمس اور خاص کر پبجی کا موضوع پھر سے گرما گیا ہے اور کئی ماہرین نے ان ویڈیو گیمس کو نئی نسل کے لئے تباہ کن قرار دیا ہے۔
پابندی کے باوجود گیمس دستیاب ہیں : سائبر سیکیوریٹی کے ماہر اور سہیادری کالج کے پروفیسر ڈاکٹر اننت پربھو کا کہنا ہے: " سرکاری طور پر پبجی پر پابندی رہنے کے باوجود ٹیکنیکل تالے توڑنے اور وی پی این سروس کے بغیر ہی گیمس تک رسائی کے لئے اے پی کے فائلس ڈاون لوڈ کرنے کا کام دھڑلّے سے کیا جارہا ہے۔ حالانکہ یہ بین الاقوامی سطح پر کاپی رائٹ قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے، مگر یہ ہورہا ہے۔ آج کل تو براہ راست براوزر پر ہی گیم کھیلنے کی سہولت مل گئی ہے۔ تھرڈ پارٹی ایپ اسٹورس اور ڈارک ویب سائٹس کے ذریعے گیمس انسٹال کیے جارہے ہیں۔"
پابندی لگانا قطعی حل نہیں ہے: ڈاکٹر اننت پربھو کہتے ہیں کہ :" گیمس اور ایپس پر پابندی لگانا ہی مسائل کا قطعی حل نہیں ہے۔ گزشتہ سال ستمبر میں پبجی گیم پر پابندی لگنے کے بعد بھی یہ خبر عام ہے کہ اب بھی یہ گیم نوجوان لڑکوں کی دسترس میں ہے۔ اس طرح کے گیمس میں قتل، بمباری، آتشزنی جیسے جرائم اورپُرتشدد کارروائیوں کو ایک عام اور معمولی بات کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے بچے اس طرح کے انتہائی اقدامات اور جرائم کا ارتکاب کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ۔
آن لائن کلاسس بھی ایک سبب: انہوں نے کہا:"المیہ یہ ہے کہ جس چیز کو ممنوع قرار دیا جاتا ہے اس کو عیاری سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ پبجی جیسے اور بھی بہت سارے گیمس ہیں جو مختلف ناموں سے دستیاب ہیں۔ والدین اس بات پر پریشان ہیں کہ بچے ویڈیو گیمس نشہ کے عادی ہوجاتے ہیں۔ اور جب ان سے یہ چیز چھڑائی جاتی ہے تو نشہ چھوٹنے سے ہونے والی بری علامات اور نتائج کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایک بڑی مشکل یہ بھی سامنے آئی ہے کہ آن لائن کلاسس کی وجہ سے بچوں کو موبائل فون سے دور رکھنا بھی ممکن نہیں ہورہا ہے۔"
جیت کا سرور بن جاتا ہے نشہ : نفسیاتی کیفیات اور اثرات کے تعلق سے ڈاکٹر اننت پربھو نے بتایا کہ پُرتعیش طرز زندگی کی وجہ سے بہت سارے طلبہ سُست اور کاہل ہوگئے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کا مقصد پانےکے لئے پُرمشقت کام کرنا نہیں چاہتے۔ اس طرح پبجی جیسے گیمس میں وہ مشغول ہوجاتے ہیں۔ ایسے گیمس کی وجہ سے ان کے جسم میں ڈوپامائن [ اعصاب کو سکون کا پیغام پہنچانے والا ایک مادہ] کی مقدار ہراس مرحلہ پر تیزی سے بڑھتی جاتی ہے جب وہ جیت درج کرتے ہیں اور انہیں ریوارڈ دیا جاتا ہے۔ اس سے ان کے اندر جوش اور خوشی کا سرور چڑھنے لگتا ہے اور پھر یہ نشہ میں بدل جاتا ہے اور وہ اس کے عادی بن جاتےہیں۔
سنگین جرائم بن جاتے ہیں معمولی: پروفیسر اننت نے یہ بھی بتایا کہ: "دوسری طرف ایسے گیمس کھیلنے کے دوران جوش پیدا کرنے والے ایڈرینلین ہارمون کی مقدار خون میں بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے، جو غصہ اور اشتعال کا سبب بن جاتا ہے۔ ان کے اندر قوت برداشت میں تیزی سے کمی آجاتی ہے۔ ان کا لاشعور اس طرح کی سرگرمیوں کو معمول کے طور پر قبول کرنے لگتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سارے طلبہ قلت تغذیہ کا شکار ہوتے ہیں، پڑھائی لکھائی میں دلچسپی نہیں لیتے اور گھروں سے بھاگنے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ذرا سی بات پر مشتعل ہوکر وہ کسی بھی قسم کا تشدد اورانتہائی اقدام کرنے گریز نہیں کرتے ۔
مالی خسارہ بھی ہوتا ہے: مالی اعتبار سے برے نتائج کی وضاحت کرتے ہوئے پروفیسر اننت پربھو نے بتایا کہ بہت کم نوجوان ایسے ہیں جو گیم کے مفت ورژن پر کھیلتے ہیں۔ اکثر نوجوان گیم کے پریمیئم ورژن کا انتخاب کرتے ہیں جس کے لئے انہیں ایپ کی خریداری کے اعتبار سے رقمیں ادا کرنی ہوتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ بہت سے والدین یہ شکایت کر رہے ہیں کہ ان کے کریڈٹ اور ڈیبیٹ کارڈز کا غلط استعمال ہورہا ہے۔
دماغ اس نشے کا عادی ہوجاتا ہے: نفسیاتی بہبود سے متعلق ادارہ 'انیرویدھا فاونڈیشن' کی ڈائریکٹر کے ٹی شویتا کہتی ہیں:" گیم کھیلنے سے بچوں کا برتاو اس نشہ کا عادی ہوجاتا ہے۔ انہیں دماغی طور پر ایسا ہی سرور ملتا ہے جیسے جوے بازی میں جیت سے ہوتا ہے یا نشہ آور چیزوں سے ہوتا ہے۔ پھر بار بار اس طرح لطف اندوز ہونے کے بعد دماغ میں ایسی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے کہ اس سے باز رہنا ممکن نہیں ہوتا۔ اور ان کے برتاو میں ایسی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جس سے جسمانی، جذباتی، پیشہ ورانہ اور سماجی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔"
والدین بھی ہیں ذمہ دار : سماجی نفسیات (سوشیل سائکولوجی) کے ریسرچ اسکالر ڈاکٹر لکشمیش بھٹ کا کہنا ہے کہ آج کل کے بچے جس صورت حال سے گزر رہے ہیں اس کے لئے والدین بھی براہ راست ذمہ دار ہیں۔ کیونکہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برت رہے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ روتے یا ضد کرتے ہوئے بچے کو چپ کروانے یا پھر ناراض بچوں کو منانے کے لئے والدین ان کے ہاتھ میں موبائل فون تھما دیتے ہیں۔ پھر دھیرے دھیرے بچہ موبائل فون پر انحصار کرنے لگتا ہے، اور آگے چل کر زندگی کے حقائق سے لاتعلق ہوجاتا ہے۔ وہ حقیقی زندگی سے دور ورچوول [مجازی یا غیر حقیقی] دنیا میں سرگرداں رہتا ہے۔
والدین کیا کرسکتے ہیں!: ڈاکٹر اننت پربھو کہتے ہیں کہ والدین کو موبائل فون پر والدین کے کنٹرول والا آپشن آن رکھنا چاہیے۔ اپنے بچوں کے استعمال میں جو فون ہوتے ہیں ان کا معائنہ وقتاً فوقتاً کرنا چاہیے۔ اگر اپنے بچوں کے رویہ میں کسی قسم کی تبدیلی محسوس ہو تو پہلی فرصت میں نفسیاتی ماہرین [کاونسیلرز] سے رابطہ قائم کرنا چاہیے اور ان بچوں کے اساتذہ کے علم میں بھی یہ باتیں لانی چاہیے۔ اس طرح والدین اور اساتذہ کو مشترکہ طریقہ سے ایسی صورت حال پر قابو پانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
(ٹائمز آف انڈیا اور ڈائجی ورلڈ سے اِنپُٹ کے ساتھ ڈاکٹر محمد حنیف شباب کی خاص رپورٹ)