منگلورو پولیس نے’نامعلوم ملزموں‘کو ’مسلم‘مان کر ہی مقدمات درج کیے ہیں۔ کیا وزیر اعظم کے اشارے پر عمل کیا جارہا ہے ؟
منگلورو30/دسمبر (ایس او نیوز) سی اے اے اور این آر سی کے خلاف منگلورو میں احتجاج کے دوران احتجاجیوں اور پولس کے درمیان ہوئی مڈبھیڑ میں ایک طرف دو افراد شہید ہوگئے تو وہیں درجنوں لوگ زخمی بھی ہوئے جن میں سے کئی افراد ابھی بھی اسپتالوں میں زیرعلاج ہیں۔
ہنگامہ آرائی اور تشدد کے بعد پولس نے دو ہزار سے زائد لوگوں کے خلاف تشدد، توڑپھوڑ، لوٹ مار، اقدام قتل اور دیش سے غداری جیسے الزامات عائد کئے ہیں اور معروف نیوز پورٹل ’دی وائر‘ کی رپورٹ پر بھروسہ کریں تو ان نامعلوم افراد کو ’مسلم‘ لکھا گیا ہے۔
خیال رہے کہ مینگلور میں شہریت قانون کے خلاف منعقدہ احتجاج کے لئے پولیس کی جانب سے پہلے اجازت دی گئی تھی، لیکن احتجاج کے ایک دن پہلے ریاستی حکومت نے دفعہ 144کے تحت امتناعی احکامات نافذ کرتے ہوئے کسی بھی مقام پر بھیڑ کے جمع ہونے پر پابندی لگادی تھی۔
خیال رہے کہ کچھ دن پہلے وزیراعظم نریندرا مودی نے ایک عوامی اجلاس کے دوران ڈھکے چھپے انداز میں اشارہ کردیا تھا کہ جو احتجاج کررہے ہیں ان کی شناخت ان کے لباس سے ہی ظاہر ہوتی ہے۔ لگتا ہے کہ اب منگلورو پولیس اور شکایت کنندگان نے بھی اس فارمولے کو اپنا لیا ہے اور کم از کم 15ایف آئی آر میں بے دھڑک’نامعلوم احتجاجی مظاہرین‘ کے ساتھ ’مسلم‘ کا لفظ بھی جوڑ دیا ہے۔جو متعصبانہ سوچ اور انداز کا ایک واضح ثبوت ہے۔
’دی وائر‘ کی رپورٹ کے مطابق 29دسمبر تک پرتشدد ہنگاموں کے لئے 24افراد کومنگلوو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زینت بخش جمعہ مسجد کے قریب پٹاخوں کی دکان چلانے والے ایم منوہر کینی کے ذریعے اس کی دکان تاراج کرنے کی شکایت درج کی گئی ہے اور اس میں ’مسلمانوں کی ایک ٹولی‘ کو اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ کرفیو کی وجہ سے منوہر اس وقت اپنی دکان میں موجود ہی نہیں تھا۔ اس نے اپنی دکان لوٹے جانے کے دو دن بعد وہاں پہنچ کر معائنہ کیا تھا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ جب تم وہاں تھے ہی نہیں تو کیسے معلوم ہوا کہ وہ مسلمانوں کی گینگ تھی، تو اس نے رپورٹر سے الٹا سوال کیاکہ ان کے سوا اور کون ہوسکتا ہے، جو ایسا کام کرے۔میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ مسلمان ہی تھے۔اسی طرح ایک جیویلری شاپ کے مالک رویندرا نکم کے نام سے جو ایف آئی آر درج کی گئی ہے اس میں بھی ’50تا60مسلم نوجوانوں‘ کو ملزم بنایا گیا ہے۔جب نکّم سے ’دی وائر‘ کے نمائندے نے پوچھا کہ تم نے کیسے پہچانا کہ وہ مسلمان تھے تو اس کا جواب تھا:”ان کی چال ڈھال(باڈی لینگویج)“جب اس چال ڈھال کی وضاحت کرنے کے لئے کہا گیا تو اس نے کہا کہ ’وہ لوگ بیاری میں کچھ بول رہے تھے اس لئے مجھے یقین ہے کہ وہ مسلمان تھے۔اس نے مزید ایک اور ’علامت‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں نے حملہ کیا تھا ان سبھی کے پتلون کے پائینچے مڑے ہوئے تھے۔
’دی وائر کی رپورٹ کے مطابق اس طرح کے پہلے سے طے شدہ نظریات کے تحت درجنوں ایف آئی آر درج کرنے کے تعلق سے جب سٹی پولیس کمشنر ڈاکٹر ہرشا سے پوچھا گیاتو ان کا جواب تھا:”ایف آئی آر ابتدائی جانچ کے لئے ایک بنیادی دستاویز ہوتی ہے۔ چونکہ مسلم تنظیموں نے احتجاجی مظاہرے کا اہتمام کیاتھا، اس لئے شکایت کنندگان نے اسی بنیاد پر الزام لگایا ہوگا۔“