منگلورو تشدد پر پبلک ٹریبونل کی رپورٹ: احتجاج سے تعلق نہ رکھنے والے بے قصور افراد ہوئے پولیس کے ظلم کا شکار۔پورے معاملے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ
منگلورو21/جنوری(ایس او نیوز) منگلورو میں 19دسمبر کو شہریت قانون کے خلاف احتجاج کے دوران تشدد، پولیس لاٹھی چارج اور فائرنگ کے سلسلے میں جنتا عدالت (پبلک ٹریبونل) نے جو تحقیقات کی تھی اس کی رپورٹ جاری کردی گئی ہے اور بتایاگیا ہے کہ احتجاجی مظاہرے سے تعلق نہ رکھنے والے بے قصور افراد پر پولیس نے ظلم و ستم ڈھایا ہے۔
اے پی سی آر اور لِسننگ پوسٹ کے زیراہتمام سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس گوپال گوڈا، ہائی کورٹ کے سابق سرکاری وکیل ایڈوکیٹ بی ٹی وینکٹیش اور سینئر صحافی سوگت سرینواس راجو پر مشتمل ایک ٹریبونل نے 6اور7جنوری کومنگلورو شہر میں پہنچ کر متاثرہ افراد سے ملاقات کی تھی اور عوامی عدالت لگاکر گواہوں اور متاثرہ افرا د کے بیانات قلم بند کیے تھے۔ اس کے علاوہ جن مقامات پراحتجاج، تشدد، لاٹھی چارج اور فائرنگ کے واقعات پیش آئے تھے وہاں جاکر معائنہ بھی کیا تھا اور آس پاس کے لوگوں سے ان کے تاثرات بھی نوٹ کیے تھے۔اسپتالوں کا بھی دورہ کرتے ہوئے وہاں پر فائرنگ اور لاٹھی چارج میں زخمی ہونے والے زیر علاج افراد کے بیانات بھی درج کیے تھے۔
جوڈیشیل انکوائری ہونی چاہیے: جنتاعدالت نے آج اپنی تحقیقاتی رپورٹ جاری کردی ہے جو 32صفحات پر مبنی ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ 19 دسمبر کو پولیس کارروائیوں کے لئے بلی کا بکرا بننے والوں کی زندگی پر ہمہ جہتی منفی اثرا ت مرتب ہوئے ہیں۔سب سے زیادہ سنگین طور پر پولیس فائرنگ میں ہلاک ہونے والے عبدالجلیل اور نوشین کے خاندان متاثر ہوئے ہیں۔اس لئے ان کے خاندان کو تحفظ اورمناسب ہرجانہ ادا کرنا چاہیے۔رپورٹ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ تشدد اور پولیس کی کارروائی کے سلسلے میں ریاستی حکومت کو چاہیے کہ جوڈیشیل کمیشن آف انکوائری کے ذریعے تحقیقات کروائے اور تمام حقائق عوام کے سامنے لائے۔
پولیس کی کوتاہیاں: خیال رہے کہ جب عوامی ٹریبونل کی ٹیم اپنی جانچ کے لئے منگلورو پہنچی تھی توٹریبونل کے ذمہ داران کے مطابق پولیس کی طرف سے انہیں جنتا عدالت لگانے اور پریس کانفرنس کرنے کی اجازت نہیں دیتے ہوئے ٹریبونل کی کارروائی میں غیر ضروری رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔
عوامی ٹریبونل نے اپنی تفتیش میں پایا ہے کہ احتجاج کی اجازت دینے کے بعد پھر اچانک دفعہ 144کا نفاذ غیر ضروری طور پر کیا گیا تھا، کیونکہ شہر میں امتناعی احکامات جاری کرنے جیسے حالات پیدا نہیں ہوئے تھے۔ پھر امتناعی احکام نافذ کرنے کے بعداس علاقے کے عوام کو اس کی پوری جانکاری بھی نہیں دی گئی تھی۔اور امتناعی احکام جاری کرکے احتجاج کے لئے دی گئی اجازت منسوخ کردی گئی۔
بے قصور افراد پر زیاتیاں: رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالات کے بارے میں صحیح جانکاری نہ ہونے کی وجہ سے جو لوگ سڑک پر آئے تھے اور احتجاجی مظاہرے سے جن کا کوئی تعلق نہیں تھا، ان پر پولیس نے لاٹھی چارج اور فائرنگ کی ہے۔ٹریبونل کے سامنے حاضر ہونے والے گواہوں نے ان حالات کے لئے موقع پر موجود پولیس کے افسران کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ کرناٹکا پولیس کے مینول کے مطابق شہریوں کے دستوری حقوق کی حفاظت کرنا پولیس کی ذمہ داری ہے۔پولیس افسران کو چاہیے کہ اپنے اختیارات اور کارروائیوں کے حدود کو نہ بھولیں اور ا س کا احترام کریں۔ لیکن 19دسمبر کو جائے وقوع پر موجود پولیس افسران نے اپنے مینول کو بھلاکر کارروائیاں کی ہیں۔
پولیس افسران کا قابل مذمت بیان: ٹریبونل کی رپورٹ کے مطابق بیانات درج کروانے والے عینی گواہوں نے بتایا ہے کہ لاٹھی چارج اور فائرنگ سے قبل عوام کوخبردار کرنے میں ایک طرف پولیس ناکام رہی ہے، تو دوسری طرف خود پولیس کے افسران نے مظاہرین کو اکسانے اور مشتعل کرنے کا کام کیا ہے اور قابل مذمت زبان استعمال کی ہے۔ تشدد کے دوران زخمی ہونے والے سابق میئر اشرف اور عفان نامی زخمی نے پولیس افسران کی فرقہ وارانہ ذہنیت اور ان کی بدکلامی کے تعلق سے وضاحت کے ساتھ بتایا ہے۔
رائفل کی دکان اور بندر پولیس اسٹیشن: ٹریبونل کا کہنا ہے کہ پولیس کی طرف سے بڑے پیمانے پر احتجاجیوں کے خلاف طاقت کااستعمال کرنے کو جائز ٹھہرانے کے لئے ایم ایم کینی نامی رائفل کی دکان کو پہنچائے گئے نقصان اوربندرپولیس اسٹیشن کومظاہرین کی طرف سے گھیرنے کی کوشش کے مناظر پیش کیے جارہے ہیں۔ اوراس تعلق سے درج کیے گئے کچھ فرسٹ انفارمیشن رپورٹس کا حوالہ دیا جارہا ہے۔لیکن متاثرہ افراد نے ان دونوں واقعات کے سی سی ٹی وی کیمرے کے مناظربار بار طلب کرنے کے باوجود پولیس نے یہ فوٹیج فراہم نہیں کیا ہے۔جولوگ 19دسمبر کے واقعات سے متاثر ہوئے ان کی زندگیوں پر بہت ہی زیادہ منفی اثرات پڑے ہیں۔ جس میں مالی دشواریاں بہت اہم ہیں۔ متاثرہ افراد براہ راست پولیس کے رویے پر سوالیہ نشان کھڑ کررہے ہیں۔
میڈیا والوں پر بھی حملہ: احتجاج اور تشدد کے مقام پر موجود ایک صحافی کے بیان کے مطابق پولیس نے اس کے پاس اخباری رپورٹر ہونے کا شناختی کارڈموجود ہونے اور اسے دیکھنے کے بعدبھی اس کی پیٹائی کی تھی۔ اس تعلق سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اخباری نمائندوں پر پولیس کا حملہ بالواسطہ طور پر میڈیا کی آواز کو دبانے کی کوشش تھی۔
اسپتال کے احاطے میں حملہ: تحقیقاتی ٹیم کو ہائی لینڈ اسپتال کے ایڈمنسٹریٹر نے بتایا کہ اسپتال کے احاطے میں بھی آنسو گیس کے گولے داغے گئے تھے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جو ویڈیو فوٹیج فراہم کیاگیا ہے اسے دیکھنے کے بعد یہ بات واضح نہیں ہوسکی کہ پولیس کو اسپتال کے احاطے میں کیوں داخل ہونا پڑا اور آنسو گیس کے گولے داغنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اس کو درست ٹھہرانے والا کوئی بھی سبب پولیس کی طرف سے نہیں بتایا گیا ہے۔
حقوق انسانی کی خلاف ورزی: ٹریبونل نے اپنی رپورٹ میں صاف طور پر واضح کیا ہے کہ قانون لاگو کرنے والے افسران کے لئے ضابطہ قانون کی دفعہ ۲ کے تحت انسانی حقوق کی پاسداری کرنا لازمی ہے۔ اور انسانی وقار پر حرف آنے نہیں دینا چاہیے۔ لیکن جب 19دسمبر کے واقعات کے پس منظر میں جائزہ لیا جائے اور عام شہریوں کے خلاف پولیس کی طرف سے طاقت کے استعمال کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پولیس نے ضابطے کی کوئی پابندی نہیں کی۔ اور اسے پوری طرح نظر انداز کرتے ہوئے اپنی کارروائیاں انجام دی ہیں۔