منگلورو: شہد کی مکھی کا زہر نکالنے کا نیا طریقہ ایجاد ۔ بین الاقوامی بازار میں اس زہرکی قیمت فی کلو ایک کروڑ روپے
منگلورو ،30؍ اکتوبر (ایس او نیوز) شہد کی مکھیاں پالنا اور شہد جمع کرکے فروخت کرنا یعنی ہنی بی فارمنگ ایک بہت ہی منافع بخش کاروبار ہے ۔ لیکن اس سے ایک اور فائدہ جو اٹھایا جا سکتا ہے وہ ہے ان مکھیوں کے زہر کو جمع کرکے فروخت کرنا کیونکہ شہد کی مکھی کا ایک گرام زہر اس کی کوالٹی کی بنیاد پر بین الاقوامی بازار میں 30 ہزار روپے تک بِکتا ہے ۔ اس طرح ایک کلو گرام زہر کی ایک کروڑ روپے سے زائد قیمت میں فروخت ہوتا ہے ۔
ساحلی کرناٹکا میں بھی شہد کی مکھی پالنے کا کاروبار بڑے زور و شور سے چلتا ہے مگر یہاں پر پائی جانے والی 'سیرینا' قسم کی مکھی کا زہر نکالنے کا اب تک کوئی آلہ دستیاب نہیں تھا اور یہاں کے کاشتکاروں کو اس کی صحیح معلومات نہیں تھی ۔
اب منگلورو کی کینیگولی کے رہنے والے پرجاول شیٹیگار نے ایک نیا طریقہ ایجاد کیا ہے جس سے شہد کی مکھیوں کو کسی قسم کا نقصان پہنچائے بغیر ان کا زہر نکال کر جمع کیا جا سکتا ہے ۔
بتایا جاتا ہے کہ پراجول شیٹیگار پیشہ سے ڈِسک جاکی ہے ۔ اس نے متبادل پیشہ کے طور پر ہنی بی فارمنگ شروع کی ۔ اس دوران جب شہد کی مکھی کا زہر نکال کر جمع کرنے کی بات اس کے سامنے آئی تو ساحلی اور ملناڈ کے علاقے میں پائی جانے والی 'سیرینا' ذات کی مکھی سے زہر نکالنے کا کوئی آلہ بازار میں دستیاب نہیں تھا ۔ پھر اس نے تحقیق اور جستجو کرنے اپنے طور پر پانچ قسم لے کر آلہ جات ایجاد کرلیے ۔ اس کام میں منگلورو کے اسسٹنٹ ہورٹی کلچر آفیسر یوگیندرا کے علاوہ ہنی بی فارمنگ میں سرگرم پروین، نوین، لکھیت اور ویویک وغیرہ نے شیٹیگار کے ساتھ تعاون کیا ۔
پراجول شیٹیگار کی جانب سے بنائے گئے آلہ کی پلیٹ کے نیچے ہلکی سی بجلی کی رو (کرنٹ) دوڑتی ہے ۔ اس کے اوپر کانچ کا کور ہوتا ہے ۔ یہ آلہ مکھیوں کو پالنے کے لئے لگے باکس کے پاس اس جگہ لگائی جاتی ہے جہاں سے مکھیاں باکس میں آتی جاتی ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ جب اس کانچ پر مکھیاں بیٹھتی ہیں تو اس پلیٹ میں ارتعاش (وائبریشن) شروع ہوتا ہے اور مکھیاں ناراض ہوکر اس پلیٹ پر اپنا ڈنک مارنے لگتی ہیں ۔ اسی کے ساتھ ان کے ڈنک میں موجود زہر، سفوف کی شکل میں پلیٹ پر جمع ہونے لگتا ہے ۔ اسے جمع کرکے ریفریجریٹر میں محفوظ کیا جاتا ہے اور مناسب مقدار جمع ہونے کے بعد اس زہر کو دوائیں تیار کرنے والی کمپنیاں بڑی مہنگی قیمت پر خریدتی ہیں ۔ یہ زہر مکھیوں کے جسم میں بالکل اسی طرح تیار ہوتا رہتا ہے جیسے انسانوں میں خون بنتا رہتا ہے ۔ اس سفوف نما ، زہر کو جمع کرنا اور اسے محفوظ رکھنا ایک بہت ہی بڑا چیلینچ ہوتا ہے ، کیونکہ ذرا سی بے پروائی اور غفلت سے پوری محنت اکارت جانے کا خدشہ بنا رہتا ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ اس طرح کا زہر پونہ، مہاراشٹرا کے دیگر شہروں کے علاوہ دہلی میں بڑے پیمانے پر نکالا جاتا ہے ، لیکن کرناٹکا کے کاشت کاروں کو اس تعلق سے زیادہ علم نہیں ہے ۔