منگلورو: محمد فاضل قتل میں ہندوتوا عناصر ملوث ہونے کا دعویٰ - اپوزیشن پارٹیوں نےکیا کیس کی دوبارہ جانچ کامطالبہ
منگلورو،31 / جنوری (ایس او نیوز) بی جے پی یووا مورچہ لیڈر پروین نیٹارو کے قتل کے بدلے میں ہندتوا عناصر کی طرف سے سورتکل میں محمد فاضل کو قتل کرنے کا کھلے عام دعویٰ کرنے والے وی ایچ پی اور بجرنگ دل لیڈر شرن پمپ ویل کے خلاف کانگریس ، جے ڈی ایس اور ایس ڈی پی آئی جیسی اپوزیشن پارٹیوں نے اس قتل کیس کی ازسر نو جانچ کا مطالبہ کیا ہے۔
بابری مسجد انہدامی کارروائی کی یاد گار کے طور پر منائے گئے شوریہ یاترا کے دوران ٹمکور میں شرن پمپ ویل کے اس بیان کے پس منظر میں کانگریس ایم ایل اے اور ڈپٹی اپوزیشن لیڈر یو ٹی قادر نے شرن کو اصلی غدار قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے جنوبی کینرا سے شہربدر کیا جانا چاہیے ۔ قادر نے کہا کہ کچھ لوگ الیکشن قریب آنے پر اپنا سیاسی زور دکھانے کے لئے ایسے بیانات دیتے ہیں۔ کانگریس پارٹی اقتدار پر آنے کے بعد قتل کے ایسے معاملات کی دوبارہ جانچ کروائے گی جن کے بارے میں شکوک کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
ڈی سی سی صدر اور ایم ایل سی کے ہریش کمار کی قیادت میں کانگریس پارٹی کے ایک وفد نے پولیس کمشنر این ششی کمار سے ملاقات کی اور مطالبہ کیا کہ شرن کمار کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور اسے ریاست سے باہر نکال دیا جائے ۔ ہریش کمار نے کہا کہ "قتل کے معاملات کو درست قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ طبقاتی تشدد کو بھڑکانا چاہتا ہے ۔ غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے مایوسی کا شکار نوجوانوں کو ہتھیار اٹھانے کی ترغیب دینا اور تشدد پر اکسانا انتہائی خطرناک ہے ۔ اسے گرفتار کرنا اور ریاست سے باہر نکال دینا ضروری ہے تاکہ شہریوں کے دلوں میں پولیس محکمہ کی عزت اور اس کا وقار برقرار رہے۔"
ایس ڈی پی آئی کے لیڈر افسر کوڈلی پیٹے نے کہا کہ شرن کو فوراً گرفتار کرنا چاہیے ۔ اور اس بات کی جانچ ہونی چاہیے کہ جنوبی کینرا میں جتنے سیاسی قتل ہوئے ہیں اس میں شرن براہ راست یا بالواسطہ ملوث ہے یا نہیں۔
جے ڈی ایس ڈسٹرکٹ یوتھ صدر اشتیاق سوورنا کہا کہ عدالتی نظام کے لئے شرن کا بیان ایک چیلینچ ہے ۔ اس سے بے قصور افراد کو قتل کرنے کا ان لوگوں کا خفیہ ایجنڈہ ظاہر ہوتا ہے ۔ یہ شرمناک بات ہے کہ پولیس نے ایسی سنگین کارروائیوں پر اپنی آنکھیں بند رکھی ہیں۔
ادھر پولیس کمشنر این ششی کمار کا کہنا ہے انہوں نے اس معاملے میں شرن پمپ ویل کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے قانونی ماہرین سے رائے طلب کی ہے۔