اے پی سی آر کا بنیادی کام ڈوکومنٹیشن ہے،بینگلور میں منعقدہ لیگل ورکشاپ میں نیشنل سکریٹری ندیم خان نے دی معلومات
بنگلور 20 جون (ایس او نیوز) اسوسی ایشن فور پروٹیکشن آف سیول رائٹس (اے پی سی آر) کا بنیادی کام ڈوکومنٹیس تیار کرنا ہے۔ یہ بات دہلی سے تشریف فرما اے پی سی آر کے نیشنل سکریٹری ندیم خان نے کہی۔ بنگلور میں منعقدہ کرناٹکا اسٹیٹ اے پی سی آر کے کارکنان کے لئے منعقدہ یک روزہ لیگل ورکشاپ میں انہوں نے بتایا کہ اے پی سی آر کے کارکنان کے لئے ضروری ہے کہ وہ واقعے کو پہلے لکھیں، پھر اُسے ریاستی ڈی جی پی کو بذریعہ رجسٹرڈ ڈاک روانہ کرے تو یہ ڈوکومینٹ کھلائے گا۔ اگر آپ واقعے کو ٹائپ کرکے نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کو ای میل کرتے ہیں تو یہ بھی ڈوکومنٹ کہلائے گا، انصاف آج ملے یا نہ ملے، لیکن ڈوکومینٹ اس بات کا ثبوت ہوگی کہ وہاں پر نا انصافی ہوئی ہے، آج فائل بھلے نہ کھلے، پانچ سال ، دس سال یا پچیس سال بعد بھی فائل کھل سکتی ہے، اس لئے ہر حال میں کسی بھی واردات، ظلم اور تشدد کاڈوکومینٹ تیار ضرور کریں۔ انہوں نے 1984 میں ہوئے سکھوں کے قتل عام کی مثال پیش کرتے ہوئے بتایا کہ وہ فائل پورے 24 سال بعد یعنی 2008 میں کھلی تھی، اور یہ فائل اُن ڈوکومنٹس کی بنیاد پر کھلی تھی جسے اُس وقت کے سیول رائٹس کے اداروں نے تیار کیا تھا۔ انہوں نے اے پی سی آر کے کارکنان کو تاکید کی کہ وہ اپنے اپنے علاقہ میں ہونے والے واقعات کو نوٹ کریں،اُسے ایک پیپر پر لکھیں اور اُسے اپنے ریاستی اے پی سی آر دفتر میں روانہ کریں، وہاں سے وہ ڈوکومینٹ ہیومن رائٹس کمیشن یا دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کو روانہ کئے جائیں گے۔
انہوں نے اے پی سی آر کے تعلق سے کہا کہ پہلے ہمیں اپنے جیسے لوگوں کی ایک ٹیم تیار کرنی ہوگی جو قانون اور قانون کے دائرے کو سمجھتے ہوں۔ انہوں نے واضح کیا کہ کووڈ کے موقع پر نعشوں کو دفنانا یا آخری رسومات ادا کرنا اے پی سی آر کا کام نہیں ہے۔ انہوں نے کارکنان کو معلومات فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ ملک سے غداری یا سیڈیشن لاء کو آج ہٹایا جارہا ہے تو اس کے پیچھے تقریباً تیس سال کی محنت کارفرما ہے، مزید بتایا کہ اے پی سی آر کی طرف سے کالا قانون یواے پی اے کو عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے، عدالتی احتساب بھی بحث کا ایک موضوع ہے، جس پر ہم کام کررہے ہیں۔ ندیم خان نے کہا کہ احتجاج کرنے کے لئے پولس کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی ، مزید کہا کہ احتجاج کرنا ہمارا حق ہے اجازت لے کر دنیا میں کہیں بھی احتجاج نہیں ہوتا۔ ندیم خان نے کہا کہ اے پی سی آر کی طرف سے نفرتی بھاشنوں کا ڈوکومینٹس تیار کیا جارہا ہے، پولس کے ذریعے ہونے والے ظلم اور تشدد کے کیسس کے تعلق سے بتایا کہ قریب گیارہ ہزار معاملے درج کئے گئے ہیں۔ تین ماہ قبل جب رپورٹ تیار کی جارہی تھی تو اُس وقت اُترپردیش میں 5388 انکاونٹر درج ہوئے تھے۔اب یہ تعداد آٹھ ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ جیل کا ریفارم بھی ایک بڑا کام ہے۔ ندیم خان نے بتایا کہ آسام میں جب 19 لاکھ 66 ہزار لوگوں کو شہریت سے باہر کیا گیا اور اُن سے کہا گیا کہ وہ اپنی شہریت ثابت کریں تو اے پی سی آر نے آسام میں تین مہینوں کے لئے 180 قانون کے جانکاری رکھنے والے مختلف کالجس کے طلبہ کی خدمات حاصل کرکے آسام میں فراہم کی تھی اور ہر ہر قصبہ میں اے پی سی آر نے اپنے خیمے نصب کرکے لوگوں کو معلومات فراہم کرنے کا کام کیا تھا کہ ڈوکومینٹس کیسے تیارکرنے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اے پی سی آر کی کوششوں سے ہی قریب تین مہینوں کے اندر دس لاکھ مسلمانوں کے ڈوکومینٹس تیار کئے گئے تھے۔ انہوں نے اے پی سی آر کے ذریعے انجام دئے جانے والے اس طرح کی کئی دیگر سرگرمیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے اے پی سی آر کارکنان سے کہا کہ ایسے مزید بہت سارے کام کرنے ہیں۔
انڈین سوشل انسٹی ٹیوٹ ہال، بنگلور میں منعقدہ ورکشاپ کے پہلے سیشن کا آغاز حسن مجاہد کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ اے پی سی آر، کرناٹک چاپٹر کے جنرل سکریٹری ایڈوکیٹ محمد نیاز نے تمام مہمانوں اور کارکنوں کا استقبال کیا، اے پی سی آر کے نیشنل نائب صدر اور کرناٹک چاپٹر کے صدر ایڈوکیٹ پی عثمان نے افتتاحی کلمات پیش کرتے ہوئے ملک میں ہونے والے حالات بالخصوص اقلیتوں پر ڈھائے جانے والےظلم پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ اس موقع پر مختلف اضلاع سے آئے ہوئے اے پی سی آر کے کئی ایک کارکنان نے اپنے علاقہ میں انجام دی گئی سرگرمیوں کی رپورٹ پیش کی۔ اے پی سی آر کے ریاستی کو۔آرڈی نیٹر شیخ شفیع احمد نے ریاستی اے پی سی آر کے ذریعے انجام دی گئی سرگرمیوں کی رپورٹ پیش کی۔اس درمیان کارکنان کے ساتھ ایک اوپن سیشن بھی رکھا گیا تھا جس میں کئی ایک نے سوالات کئے اور کئی ایک نے مفید مشوروں سے بھی نوازا۔
اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے اے پی سی آر کرناٹک چاپٹر کے سرپرست مولانا محمد یوسف کنّی نے کارکنان کو ہدایت دی کہ اے پی سی آر کے لئے جو دائرہ متعین کیا گیا ہے، کارکنان کو اُسی دائرے کے اندر رہ کر کام کرنا ہے۔انہوں نے کارکنان کو اپنے اپنے ضلع میں ایسے لوگوں کو تلاش کرنے کہا جو حقوق انسانی کے لئے اور حق اور انصاف کے لئے کام کرنے پر آمادہ ہوں۔مولانا نے ڈسٹرکٹ ٹیم کے کارکنان سے کہا کہ وہ کم ازکم ماہ میں ایک مرتبہ میٹنگ کا انعقاد کرتے ہوئے اپنے ضلع کے حالات اور مسائل پر نظر دوڑائیں۔ اگر کسی پر ظلم ہورہا ہو تو اُس کے خلاف آواز بلند کریں۔ اپنے ضلع میں اگر کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو ریاستی ذمہ داران کو جانکاری دیں اور مسئلہ کے حل کے تعلق سے کس طرح کے اقدامات کئے جارہے ہیں اُس کی تفصیل ریاستی ذمہ داران کو دیں، اسی طرح انہوں نے اس بات کی بھی تاکید کی کہ ضلع کے صدر اور سکریٹری ریاستی صدر اور سکریٹری کےساتھ برابر رابطے میں رہیں۔
دوپہر کی ضیافت کے بعد دوسرے سیشن میں اے پی سی آر کے نیشنل سکریٹری ندیم خان نے واضح کیا کہ اے پی سی آر کے ذریعے کونسے اور کس طرح کے کاموں کو انجام دینا ہے، اور لوگوں کی قانونی امداد کس طرح کی جاسکتی ہے۔
پروگرام میں شرکت کرتے ہوئے معروف تاریخ داں ا ورسماجی جہدکار رام پنیانی نے کہا کہ مذہب کےنام پر سیاست کرنے والی پارٹی کبھی اقتدار پر نہیں آنی چاہئے ، اس کے لئے تمام لوگوں کو مل جل کر کوشش کرنی چاہئے، انہوں نے رائٹ ونگ کی سیاست کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا کہ آج مسلمانوں اور عیسائیوں کو نشانہ بنانے کا اصل مقصد ملک میں منو واد کے ایجنڈہ کو لاگو کرناہے۔انہوں نے کہا کہ آج مسلمان جتنا خطرہ محسوس کررہے ہیں، اتنا ہی خطرہ ہم جیسے سیکولر اور جمہوری اقدار کے ماننے والے لوگ بھی محسوس کررہے ہیں۔
فورم فور ڈیموکریسی اینڈ نیشنل امیٹی کے نیشنل جنرل سکریٹری پروفیسر سلیم انجینر نے نفرت کی سیاست اور ہماری جمہوریت پر خطاب کیا۔جماعت اسلامی ہند کرناٹک کے صدر ڈاکٹر سعد بیلگامی اوراے پی سی آر کے نیشنل جنرل سکریٹری ملک معتصم نے بھی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔اے پی سی آر بنگلور کے صدر ایڈوکیٹ امین احسان نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔ قریب ڈیڑھ سو سے زائد اے پی سی آر کارکنا ن نے ورکشاپ سے استفادہ کیا۔