لوک سبھا انتخابات؛ اُترکنڑا میں کیا آنند، آننت کو پچھاڑ پائیں گے ؟ نامدھاری، اقلیت، مراٹھا اور پچھڑی ذات کے ووٹ نہایت فیصلہ کن
بھٹکل 20/اپریل (ایس او نیوز) اُترکنڑا میں لوک سبھا انتخابات کے دن جیسے جیسے قریب آتے جارہے ہیں نامدھاری، مراٹھا، پچھڑی ذات اور اقلیت ایک دوسرے کے قریب تر آنے کے آثار نظر آرہے ہیں، اگر ایسا ہوا تو اس بار کے انتخابات نہایت فیصلہ کن ثابت ہوسکتےہیں بشرطیکہ اقلیتی ووٹرس پورے جوش و خروش کے ساتھ ایک ایک ووٹ کو بے حد قیمتی سمجھ کر پولنگ میں حصہ لیں۔ سمجھا جارہا ہے کہ اقلیتوں کے ساتھ دیگر پسماندہ ذات کے طبقات اگر ایک طرف اپنا جھکاو رکھتے ہیں تو وہ جس اُمیدوار کے حق میں بھی آگے بڑھیں گے، اُس اُمیدوار کو جیت درج کرنے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔
تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ اُترکنڑا لوک سبھا حلقے پر اقلیتی اُمیدوار چار مرتبہ کامیاب ہوئے ہیں، نامدھاری سماج کے اُمیدوار کو پانچ مرتبہ کامیابی ملی ہے، جبکہ حلقہ میں برہمن ووٹروں کی تعداد کم ہونے کے باوجود آننت کمار ہیگڈے پانچ مرتبہ جیت درج کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
اس بار چونکہ کانگریس اور جے ڈی ایس کی طرف سے مشترکہ اُمیدوار آنند اسنوٹیکر میدان میں ہے، مقابلہ نہایت سخت ہونے کے آثار ہیں۔ سمجھا جارہا ہے کہ آنند آننت کے لئے نہ صرف لوہے کے چنے ثابت ہوں گے بلکہ آنند ہی آننت کو پچھاڑنے میں کامیاب بھی ہوں گے۔
آنند اسنوٹیکر چونکہ مراٹھا طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، سمجھا جارہا ہے کہ اُنہیں اپنے طبقے کے مکمل نہیں تو کم از کم 60 فیصد ووٹ ضرور حاصل ہوسکتے ہیں، کاروار اور انکولہ میں اسنوٹیکر کی کافی مضبوط پکڑ ہے، اس لئے توقع کی جاسکتی ہے کہ ان تعلقہ جات کے ووٹروں کا زیادہ وزن پھر ایک بار اسنوٹیکر کے پلڑے میں جاسکتا ہے۔ اُدھر ہلیال اور یلاپور میں کانگریس کی پکڑ ہونے کی وجہ سے اُس حلقہ کے زیادہ تر ووٹ بھی اسنوٹیکر کے حصے میں جانے کے آثار ہیں۔ ایسے میں جس مضبوطی کے ساتھ اسنوٹیکر ہیگڈے پر یکے کے بعد دیگرے وار کررہے ہیں، ایسا لگ رہا ہے کہ آنند اننت پر بھاری پڑسکتے ہیں۔
خیال رہے کہ اُترکنڑا پارلیمانی حلقہ میں اُترکنڑا کے تمام تعلقہ جات سمیت پڑوسی تعلقہ خانہ پور اور کتور بھی آتے ہیں جہاں مراٹھا ووٹروں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔
پورے پارلیمانی حلقہ کے ووٹروں پر نظر دوڑائیں تو یہاں جملہ ووٹروں کی تعداد 15,52,544 ہے جس میں مرد ووٹروں کی تعداد 786,417 اور خواتین ووٹروں کی تعداد 7,66,106 ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق حلقہ میں نامدھاری ووٹروں کی تعداد قریب 3 لاکھ ، مراٹھا ووٹروں کی تعداد قریب تین لاکھ، اقلیتوں کی تعداد قریب تین لاکھ، برہمن قریب ڈیڑھ لاکھ، ہالّکی۔وکلیگاس قریب ایک لاکھ، ماہی گیر قریب ایک لاکھ، لنگایت قریب ایک لاکھ، ایس سی ایس ٹی قریب ڈیڑھ لاکھ، دیگر 50 ہزار ہیں۔
سمجھا جارہا ہے کہ اگر نامدھاری کے پچاس فیصد ووٹوں کے ساتھ مراٹھا ، پچھڑی ذات اور ماہی گیروں کے پچاس فیصد ووٹ کسی ایک اُمیدوار کو ملتے ہیں اور ایسے میں متعلقہ اُمیدوار اقلیتوں کے ووٹ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوپاتا ہے تو پھر متعلقہ اُمیدوار کی جیت پکی ہے۔یہ دیکھنا اب دلچسپ ہوگا کہ نامدھاری سماج کے ووٹ کس اُمیدوار کے پالے میں جاتے ہیں، کیا بی کے ہری پرساد اپنے نامدھاری سماج کے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہوں گے ؟ سول یہ بھی ہے کیا اقلیتی ووٹرس پورے جوش و خروش کے ساتھ ملک کی جمہوریت کو بچانے کے لئے اپنی پوری قوت پولنگ کے دن جھونکیں گے ؟
یہ دیکھنا بھی اب دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ حالیہ ایم پی کی کارکردگی کو لے کر پورے ضلع میں جو باتیں گردش میں ہیں، کیا زیادہ تر ووٹروں پر اُس کا کچھ اثر ہوگا اور تبدیلی لانے کے مقصد سے ضلع کے ووٹرس پولنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے یا ایک بار پھر دو فرقوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرکے انگریزوں کی تقسیم کرو حکومت کرو کی پالیسی کامیاب ہوگی ؟
یاد رہے کہ آج اتوار انتخابی تشہیر کا آخری دن ہے ، خبر ہے کہ پوری طاقت جھونکنے کے لئے جے ڈی ایس سپریمو دیوے گوڈا صاحب آج ہوناور ہوتے ہوئے بھٹکل پہنچیں گے، خیال رہے کہ اس سے قبل ریاست کے وزیراعلیٰ کماراسوامی کمٹہ اور ضلع کے دوسرے حلقوں میں انتخابی پرچار کرچکے ہیں اور ووٹروں کو لبھانے کی پوری کوشش ہورہی ہے۔ دیکھئے آگے آگے ہوتا ہے کیا!