کانگریس نہیں تو کون‘وقت کا تقاضہ کیا ہے؟
بنگلورو،8؍اپریل(ایس او نیوز؍ایجنسی) عام انتخابات 2019 کو فرقہ پرست پارٹیوں نے اپنے لئے انا کا مسئلہ بنالیا ہے ۔ وہ ہندوستان کو جمہوریت سے نکال کر آمریت کی طرف لے جانے کے لئے کمربستہ ہیں ۔ 2014 میں آر ایس ایس کی کوکھ سے جنم لینے والی سیاسی پارٹی بی جے پی کی حکومت کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کو جن حالات کا سامنا ہے انہیں ملک کی کئی نسلوں نے کبھی نہیں دیکھا۔ مسلمانوں کو سماجی، اقتصادی، تعلیمی، غرض کہ اکثر شعبوں میں شدید دباؤ کا سامنا ہے ۔ملک کی سیاست میں وہ حاشیہ پر جاچکے ہیں ۔ سیاسی نمائندگی میں اس وقت وہ سب سے نیچے ہیں اور اعلیٰ تعلیم میں بھی وہ پہلے کے مقابلے میں کافی پیچھے ہوچکے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کانگریس ،بی جے پی یا دیگر سیاسی پارٹیاں یا خود مسلمان۔آزادی کے بعد سب سے زیادہ کانگریس نے حکومت کی ہے ۔ اوریہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے کانگریس کو ایسا موقع فراہم کردیا ہے کہ وہ مسلم ووٹوں پر اپنا قبضہ سمجھتی ہے ۔مسلم لیڈر شپ کے وجود کوکانگریس ابھرنے دینا نہیں چاہتی ۔کانگریس نے ہمیشہ مسلمانوں کو اپنے ماتحت رکھنے کی نہ صرف یہ کہ کوشش کی بلکہ اس کی پالیسی کے خلاف جس نے بھی آوازاٹھائی کانگریس نے اسے بی جے پی اور آر ایس ایس کا ایجنٹ ظاہر کرکے خود مسلمانوں کو ان سے بدظن کرنے کی مہم چلائی۔ مولانا ابوالکلام آزاد سے لے کر غلام نبی آزاد تک دسیوں بڑے رہنماؤں کی فہرست ہے جو کانگریس کی استحصالی سیاست کا شکار ہوچکے ہیں ۔ پارلیمانی انتخابات 2019 میں بھی ریاست کرناٹک میں کانگریس نے اپنے 20 حلقوں میں صرف ایک مسلم نمائندہ کو منتخب کیا ہے جس سے ناراضگی مسلمانوں کا حق بھی ہے اور تقاضۂ فطریہ بھی، کیونکہ مسلمانوں کے دم خم پر ہی کانگریس پارٹی نے اکثر وبیشتر اپنی حکومتوں کی بنیاد رکھی ہے ۔
گذشتہ کرناٹک اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے خلاف مسلمانوں نے متحدہ طورپر ووٹ دے کر یہ ثابت کردیا کہ وہ اس سرزمین پر فرقہ پرست پارٹی کو قبول نہیں کریں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج اسمبلی انتخابات میں بی جے پی بڑی پارٹی ہونے کے باوجود اقتدار سے بے دخل ہے اور سکیولر پارٹیوں کانگریس اور جے ڈی ایس کی مخلوط حکومت قائم ہے ۔ یہ صرف اور صرف مسلمانوں کی دین ہے ورنہ کسی دوسری قوم نے کانگریس کو متحدہ طورپر جتانے کی کوشش نہیں کی۔ کانگریس کو مسلمانوں کا احسان مند ہونا چاہئے لیکن مسلم نمائندگی کو نظرانداز کرنے کی ذمہ دار صرف کانگریس پارٹی ہے یا خود مسلم لیڈرس بھی ۔ کیا مسلم لیڈروں نے عام دنوں میں کانگریس کو مسلمانوں کے حالات کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی۔ اسمبلی ہو یا پارلیمان میں مسلمانوں کی زیادہ سے زیادہ نمائندگی پر مسلم قیادت نے کانگریس کے اعلیٰ کمان کو مجبورکیا اورخود مسلم سیاسی رہنماؤں نے اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کیا کہ وہ اسمبلی یا پارلیمان یا دیگر بڑے عہدوں کے قابل ہیں یا اہلیت رکھتے ہیں ۔یہ ایسے سوالات ہیں جو چبھتے ضرور ہیں لیکن لازمی ہیں۔اس لئے ضروری ہے کہ وقت رہتے کانگریس پارٹی کو مجبورکیا جائے ۔ لیکن ایسے وقت میں جب کہ 2024 کے عام انتخابات نہ ہونے دینے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔ آئین کی بالادستی کو ختم کرکے مودی کی بالادستی قائم کئے جانے کے دعوے کئے جارہے ہیں ۔ اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں میں خوف پیدا کیا جارہا ہے اور 2019 میں مرکز کے اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد ہندوستان کو ہندوراشٹر بنانے کے اشارے دئے جارہے ہیں کیا ایسے وقت میں سکیولر پارٹی کی کمیوں اورخامیوں کو اجاگرکرکے اس کی اصلاح چاہ رہے ہیں یا پھر فرقہ پرست پارٹی کو ایک بار پھر راہ ہموارکررہے ہیں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ تمام سکیولر مزاج کے لوگ ایک پلیٹ فارم پر آکر ایک بار پھر فرقہ پرست پارٹی کو اقتدار سے بے دخل کریں ۔ چونکہ منافرت اورتفریق پر مبنی نظام کسی ایک برادری کو نہیں بلکہ پورے ملک کو نقصان پہنچائے گا اس لئے سب سے بڑا سوال آج یہی ہے کہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے جیتنے کے بعد جمہوریت بچے گی یا نہیں؟کیونکہ قوم پرستی کا استعمال ہندوستانیوں کو تقسیم کرنے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے ۔ ان دنوں جمہوریت کا دشمنوں نے ایسا ماحول پیدا کردیا ہے کہ نہ عام شہری کچھ سوچ سکتا ہے اورنہ سوال کرتا ہے ۔اگر کوئی جرأت کرتا ہے تو اسے ملک دشمن قرار دے دیا جاتا ہے ۔