لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد اب کرناٹک اور مدھیہ پردیش حکومتوں پر لٹکی تلوار
نئی دہلی، 25 مئی(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا) لوک سبھا انتخابات کے نتائج آ گئے ہیں اور بی جے پی کو مکمل اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ملک میں ایک بار پھر وزیر اعظم مودی کی قیادت میں حکومت بننے جا رہی ہے۔30 مئی کو وزیر اعظم نریندر مودی حلف لیں گے۔ادھر بی جے پی نئی حکومت بنانے کی تیاری میں مصروف ہے تو ادھر مدھیہ پردیش اور کرناٹک کی مخلوط حکومتوں پر تلواریں لٹکنے لگی ہے۔مدھیہ پردیش اور کرناٹک کی سیاست میں اتھل پتھل کا دور شروع ہو گیا ہے۔خبروں کی مانیں تو بی جے پی کانگریس اور اس کے اتحاد کی حکومت کو گرانے کے فراق میں ہے۔ایسے میں آئیے دیکھتے ہیں دونوں ریاستوں کے مساوات کیا ہے اور کس ریاضی کو سادھ کر بی جے پی ریاست میں بغاوت کر سکتی ہے۔کرناٹک میں فی الحال جنتا دل سیکولر اور کانگریس کی حکومت ہے۔ریاست میں سیاسی مساوات تبدیل ہو رہا ہے۔کانگریس لیڈر روشن بیگ نے بغاوتی تیور دکھانے شروع کر دئے ہیں۔انہوں نے کرناٹک کانگریس کے انچارج کے سی وینو گوپال کو بھینسا کہہ ڈالا۔کانگریس پر نشانہ لگاتے ہوئے کہا کہ مجھے تو راہل گاندھی پر ترس آتا ہے۔ایگزٹ پول کے نتائج پر کہا کہ یہ وینو گوپال اور سددارمیا کے تکبر کا فلاپ شو ہے۔بیگ نے سابق وزیر اعلی سدارمیاپر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود نہیں چاہتے ہیں کہ حکومت زیادہ دن چلے۔225 اسمبلی والے کرناٹک میں بی جے پی کے پاس 104 سیٹ ہیں، جبکہ جے ڈی ایس کے پاس 37 اور کانگریس کے پاس 78 نشستیں ہیں۔ایک بی ایس پی کا رکن اسمبلی بھی کانگریس جے ڈی ایس کے حکومت کے ساتھ ہے۔اکثریت کے لئے 112 نشستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ابھی کانگریس، جے ڈی ایس اور بی ایس پی اتحاد میں ہے اور اس کے پاس 116 سیٹیں ہیں لیکن پارٹی کے لئے کچھ لیڈروں کے بغاوتی تیور نے فکر کھڑی کر دی ہے،اگر بی جے پی ان ممبران اسمبلی میں سے 8 کو اپنے پالے میں کرنے میں کامیاب ہو گئی تو ریاست میں کانگریس کی حکومت گر جائے گی۔انہیں باتوں سے پریشان ریاست کے وزیر اعلی ایچ ڈی کماراسوامی نے آج رکن اسمبلی جماعتوں کی میٹنگ بلائی ہے۔مانا جا رہا ہے کہ اس اجلاس میں وہ یقینی بنانے کی کوشش کریں گے کہ کوئی ناراض ہو کر پارٹی چھوڑنے کا دل تو نہیں بنا لیاہے۔جو خطرہ کرناٹک حکومت کے اوپر ہے وہی خطرہ مدھیہ پردیش کی کمل ناتھ حکومت کے اوپر بھی ہے۔دراصل جیسے ہی ایگزٹ پول کے نتائج آئے تبھی بی جے پی کی جانب سے گورنر کو خط لکھ کر کہا گیا کہ کمل ناتھ سرکار کے پاس اکثریت نہیں ہے۔اس کے بعد سے ہی حکومت خطرے میں آ گئی۔مدھیہ پردیش میں کانگریس کی حکومت آزاد اور ایس پی-بی ایس پی کے اراکین اسمبلی کی حمایت سے چل رہی ہے۔اسمبلی انتخابات میں کانگریس پانچ سیٹوں سے اکثریت سے دور رہ گئی تھی۔ریاست میں 231 اسمبلی کی سیٹیں ہیں، اکثریت کے لئے 116 ممبران اسمبلی کی ضرورت ہوتی ہے۔کانگریس کے پاس 113 ممبران اسمبلی ہی ہیں، جبکہ چار آزاد امیدوار، دو بی ایس پی اور ایک ایس پی کے رکن اسمبلی نے کانگریس کی حکومت کو حمایت دی ہے۔ریاست میں بی جے پی کے پاس 109 سیٹیں ہیں یعنی بی جے پی اگر یہاں 7 ممبران اسمبلی کو خریدنے یا کسی بھی طرح اپنے پالے میں کر لیتی ہے تو وہ ریاست میں حکومت بنا لے گی۔