بنگلور: ٹرانسفرس کے احکامات ملتوی کرانے میں مبینہ طور پر با رسوخ اساتذہ کی لابی شامل، چار سال سے ڈگری کالجوں کے لکچررس کے تبادلے نہیں ہوسکے
بنگلور: /10 جولائی (ایس او نیوز/ایجنسی) ریاست کرناٹک کے سرکاری فرسٹ گریڈ کالجوں میں خدمات انجام دے رہے لکچررس کے تبادلے نہیں ہوسکے ہیں، جس کے سبب انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس تعلق سے الزامات لگائے جارہے ہیں کہ چند با رسوخ لکچررس کی طرف سے سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال کرکے تبادلوں کی کاروائی ملتوی کرائی جارہی ہے۔ اس کے لئے کئی وجوہات بتائی جارہی ہیں جس میں ایک یہ بھی ہے کہ بنگلور، میسور سمیت دیگر بڑے شہروں میں پچھلے کئی سالوں سے کام کر رہے لکچرروں کو شہر چھوڑ کر باہر نکلنا پسند نہیں ہے اس کے علاوہ بنگلور میں کام کر رہے لکچررس کو ہاؤس الاونس (گھر کا کرایہ) بھی زیادہ دیا جاتا ہے۔ تیس سال سے کام انجام دے رہے لکچرروں کو بنگلور میں ہاؤس الاوئنس ہی 24 فی صد کے حساب سے /50 ہزار روپئے ہے، جبکہ میسور میں قیام کئے ہوئے لکچرروں کی 12 فی صد، رام نگرم، ٹمکور، کولار سمیت دیگر بڑے شہروں میں کام کر رہے لکچررس کو 8 فی صد ایچ آر اے حاصل ہوتا ہے، جس کے سبب لکچرروں کی نظر ایچ آر اے پر جمی ہوئی ہے۔ اس دوران اکثر لکچرروں کی مانگ یہ ہے کہ اپنی پسند کے مقام پر انہیں ڈیپوٹ کیا جائے بتایا گیا ہے کہ اب تک 700 سے زیادہ لکچرروں نے اپنا ڈیپوٹیشن کروایا ہے۔البتہ ہزاروں لکچررس پچھلے کئی سالوں سے ایک ہی کالج میں اپنی خدمات انجام دیتے آرہے ہیں۔
ذرائع کی مانیں تو ڈگری کالجوں کے لکچرروں کے تبادلوں کے قوانین میں مکمل طور پر ترمیم لانے کا اعلان کرنے والے محکمہ اعلیٰ تعلیم نے بھی اب تک اس ضمن میں کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ رواں تعلیمی سال کے دوران بھی ڈگری کالجوں کے لکچررس کے تبادلوں کی کاروائی مشکوک ہی ہے۔ لکچرروں کا مطالبہ ہے کہ لازمی تبادلوں کے قوانین کے تحت ہی اس سال تبادلے کردئے جائیں۔ ڈگری کالجوں میں کام کرنے والے لکچرروں کے تبادلوں کے لئے 2012ء میں محکمہ کالجویٹ ایجوکیشن کے عملہ کے تبادلوں کے تعلق سے ایکٹ جاری ہوا تھا۔ قوانین کے مطابق اے زمرے میں کم سے کم تین سال خدمات انجام دینے والے لکچررس کو لازمی طور پر سی یا بی زمرے کے لئے تبادلہ کیا جانا چاہئے، مگر ایکٹ جاری ہونے کے بعد صرف 2013-14 اور 2016-17 میں ہی تبادلوں کی کاروائی عمل میں آئی ہے۔