تبلیغی جماعت کا ’ٹائمز آف انڈیا‘ کو ہتک عزت کا نوٹس، بے بنیاد خبریں شائع کرنے کی پاداش میں معافی مانگنے اور ایک کروڑ ہر جانہ ادا کرنے کا مطالبہ
ممبئی،7/اپریل(ایس او نیوز/ایجنسی) تبلیغی جماعت سے منسلک ایک رکن نے آج ٹائمز آف انڈیا گروپ کو جماعت کے بارے میں اشتعال انگیز اور بے بنیاد خبریں شائع کرنے کی پاداش میں ہتک عزت کا قانونی نوٹس بھیج دیا ہے۔ یہ نوٹس بنگلورو کے مکین حفیظ اللہ خان ’لیگل فرم‘ پرائم لا ایسوسی ایٹس کی معرفت بھیجا ہے۔
نوٹس میں ٹائمز آٖ انڈیا کے یکم اپریل کے شمارہ تبلیغی جماعت کے بارے میں شائع ایک مواد میں بے بنیاد نکات کا حوالے دیا گیا۔ نوٹس میں ٹائمز آف انڈیا سے کہا گیا کہ آپ نے اپنے مضمون میں تبلیغی جماعت کو پاکستانی دہشت گرد تنظیم ’حرکت المجاہدین‘ کا ساتھی قرار دیا ہے نیز یہ بھی لکھا کہ 1999ء میں انڈین ائیر لائنس کے طیارے کے اغوا میں تبلیغی جماعت کے لوگ ممبران شامل تھے۔‘ یہ بات سراسر جھوٹی اور بے بنیاد ہے کیونکہ طیارہ اغوا کے اس معاملے میں کسی بھی تفتیش یا تحقیقات میں کہیں بھی تبلیغی جماعت کا نام نہیں ہے۔
نوٹس میں مزید کہا ہے کہ اخبار اپنے مضمون میں گودھرا سانحہ کیلئے بھی تبلیغی جماعت کو ذمہ دار قرار دیا۔ یہ بات بھی قطعی جھوٹ اور گمراہ کن ہے کیونکہ سانحہ کی تفتیش اور تحقیقات کرنے والے نانا وتی کمیشن کی 176/ صفحات پر مبنی رپورٹ میں کہیں بھی تبلیغی جماعت کا نام نہیں ہے۔ آرٹیکل میں اخبار لکھا کہ تبلیغی جماعت پر کئی ممالک میں پابندی لگادی گئی ہے اور کئی ممالک کی حکومتیں تبلیغی جماعت کو ویزا نہیں دیتی ہیں۔ یہ بھی جھو ٹ اور نا پاک مقصد کے تحت لکھا گیا ہے کیونکہ تبلیغی جماعت کبھی بھی کسی بھی غلط کام میں ملوث نہیں پائی گئی ہے۔ اسے کبھی بھی ’بلیک لسٹ‘ نہیں کیا گیا ہے۔ نہ ہی اس پر کبھی بھی دہشت گردوں کی حمایت کرنے کا کوئی الزام لگا ہے۔ یہ پورا مضمون سماج میں زہر پھیلانے کے مقصد سے شائع کیا گیا ہے جس سے تبلیغی جماعت کے اراکین کی زندگی خطرہ میں پڑسکتی ہے۔ یہ مضمون نہ صرف اشتعال انگیز ہے بلکہ یہ تبلیغی جماعت کی شبیہ کو مسخ کرنے والا بھی ہے۔
اس سے تبلیغی جماعت کے لوگوں کے خلاف تشدد کے امکان بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ ٹائمز آف انڈیا غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے اپنی ویب سائٹ پر لکھے کہ ’تبلیغی جماعت کا کسی بھی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے ساتھ ہی ایک کروڑ ہرجانہ بھی ادا کرے۔ ایسا نہیں کرنے کی صورت میں ٹائمز آف انڈیا کے خلاف آگے کی قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔