مرکزی یا ریاستی حکومت کسی بھی شخص کے کمپیوٹر سے خفیہ طورپر معلومات حاصل کرسکتی ہے۔ پارلیمنٹ میں وزیربرائے داخلی امور کرشنا ریڈی کا جواب
نئی دہلی 20/نومبر (ایس او نیوز) گزشتہ مہینے وہاٹس ایپ کے توسط سے اسرائیلی وائرس ’پیگاسس‘کا استعمال کرنے اور کچھ خاص لوگوں کی نگرانی کرنے اور ان کے موبائل اور کمپیوٹر سے ذاتی معلومات خفیہ طور پر اکٹھا کرنے سے میڈیا میں جو ہنگامہ مچا تھا اس کے بارے میں مرکزی حکومت نے کوئی اقرار یا انکار کرنے کے بجائے مبہم جوابات دینے پر اکتفا کیا۔
پارلیمنٹ جب سابق وزیر مواصلات دیاندی ماران نے جب ہوچھا کہ کیا مرکزی حکومت نے ’پیگاسس‘ کا استعمال کرتے ہوئے اپنے شہریوں کی خفیہ نگرانی کی تھی، تو اس وزیرمملکت برائے امور داخلہ جی کرشناریڈی نے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ 2000کے تحت مرکزی اور ریاستی حکومتوں کسی بھی شہری کے کمپیوٹر ذرائع سے تیارشدہ، روانہ کردہ، وصول کردہ یا جمع کرکے رکھی گئی معلومات کی جاسوسی کرنے کی اجازت اپنی ایجنسیوں کو دینے کا اختیار حاصل ہے۔ وزیر موصوف نے ٹیلی گراف ایکٹ 1985کی دفعہ 5کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عوامی ہنگامی حالات یا عوامی تحفظ کے پیش نظر کسی خاص فرد کو بھی پیغامات کا معائنہ کرنے کے اختیارات حاصل ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اس طرح کی جاسوسی کا معاملہ مرکزی حکومت کی طرف سے ہوتو مرکزی ہوم سیکریٹری اور ریاستی سطح پر ہوتو ریاستی ہوم سیکریٹری سے اجازت لینا ضروری ہوتاہے۔
قانونی طور پر مرکزی حکومت کے ہوم سیکریٹری کی اجازت سے جو ایجنسیاں کسی کے فون کی ٹیاپنگ یا جاسوسی کرسکتی ہیں ان کے نام یوں ہیں: ۱) انٹلی جنس بیورو (آئی بی)، ۲) سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن(سی بی آئی)، ۳) انفوسمنٹ ڈائریکٹوریٹ(ای ڈی، ۴) نارکوٹکس کنٹرول بورڈ(این سی بی)، ۵) سنٹرل بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکسس(سی بی ڈی ٹی)، ۶) ڈائریکٹوریٹ آف ریوینیو انٹلی جنس(ڈی آر آئی)، ۷) نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی(این آئی اے)، ۸) ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ(را)، ۹) ڈائریکٹوریٹ آف سگنل انٹلی جنس، ۰۱)دہلی پولیس کمشنر۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ وزیر موصوف نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا کہ حکومت نے کچھ حقوق انسانی کے کارکنان اور صحافیوں کی وہاٹس ایپ سے جاسوسی کرنے کے لئے اسرائیلی جاسوس وائرس ’پیگاسس‘خریدا تھا یا نہیں۔جبکہ گزشتہ مہینے وہاٹس ایپ نے اس بات کا اقرار کیا تھاکہ ’پیگاسس‘ وائرس کے ذریعے 121ہندوستانی باشندوں کی پیغام رسانی پر نظر رکھی گئی تھی۔مگر اس طرح کی جاسوسی کی اجازت کس ایجنسی کو کس کی طرف سے دی گئی تھی اس کے بارے میں کوئی بھی بات واضح طور پر سامنے نہیں آئی ہے۔