گڑگاؤں میں مندر،چرچ اورگردوارہ کیلئےزمین دی گئی مگر مسجد کیلئےزمین ملی نہ اجازت
نئی دہلی، 22؍نومبر (ایس او نیوز؍ایجنسی) گڑگاؤں میں مساجد کی کمی کی وجہ سے مسلمان نماز جمعہ کھلی جگہوں پر ادا کرنے پر مجبور ہیں مگر گزشتہ چند برسوں سے شدت پسند بھگوا عناصر جن میں بی جےپی کے کچھ لیڈر بھی شامل ہیں، اس کے خلاف مسلسل شرانگیزی کرکے ماحول کو خراب کررہے ہیں۔ حالیہ چند مہینوں میں اس میں پھر شدت آگئی ہے جس کے بعد چند برادران وطن نے وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو نماز کی ادائیگی اپنی زمین پیش کی ہے۔ اسی طرح گردوارہ اور چرچ کے ذمہ داران نے بھی اپنے ہاں نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے جگہ دینے کی پیشکش کی ہے۔ وقت کے ساتھ یہ مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے جس کے بعد مسلمانوں نے وقف کی زمینیں اور آثار قدیمہ کے نام پر بند کی گئی مساجد کو مسلمانوں کے حوالے کرنے کی مانگ کی ہے مگر اس پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق گڑگاؤں میں مسلمانوں کی آبادی ۴ء۵؍فیصد تھی۔اس کے بعد یوپی ، بہار اور دیگر علاقوں سے روزگار کی تلاش میں یہاں مسلمانوں کی آمد کی وجہ سے ان کی آبادی مزید بڑھ گئی ہے۔ان میں سے زیادہ تر آس پاس کے صنعتی مراکز، دکانوں اور مالس میں ملازمت کرتے ہیں۔ان میں سے اکثریت غریب ہے جو کرائے کے مکانات میں یا پھر کئی لوگ مل کر ایک ہی مکان کرائے پر لے کررہتے ہیں۔ ہریانہ میں ایسے امیر اور صاحب حیثیت مسلمانوں کی تعداد کافی کم ہے جو پاش علاقوں میں رہتے ہوں۔ آبادی میں اضافے کیلئےمسلمانوں کو نماز کی ادائیگی اور دیگر امذہبی ضروریات کیلئے مساجد درکار ہیں مگرنڈیا ٹومارو کی رپورٹ کے مطابق ہریانہ سرکار مساجد کیلئے زمین الاٹ کرتی ہے، نہ نئی مساجد کی تعمیر کی اجازت دیتی ہے۔ سید محمد خالق کے مطابق گڑگاؤں شہر میں ۱۹؍ پرانی مساجد پر غیر مسلموں کا قبضہ ہے۔ ریاستی انتظامیہ انہیں بھی خالی کراکر مسلمانوں کے حوالے کرنے کو تیار نہیں ہے جس سے مسئلہ کسی حدتک حل ہوسکتاہے۔ راجیہ سبھا کے سابق رکن محمد ادیب نے انڈیا ٹومارو سے گفتگو کرتےہوئے بتایا کہ چند برس قبل ایک مسلم ٹرسٹ نے مسجد کیلئے زمین الاٹ کروانے کیلئے درخواست دی تھی اور18؍ لاکھ روپے بھی جمع کئے تھے مگر یہ درخواست ٹھکرادی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ ’’ہریانہ ڈیولپمنٹ اتھاریٹی نے مسلمانوں کو مسجد کیلئے زمین الاٹ نہیں کی بلکہ مذہبی مقامات کیلئے زمینوں کے الاٹمنٹ سے ایک روز قبل مسلم ٹرسٹ کی رقم اسے لوٹا دی گئی۔‘‘سید خالق احمد کے مطابق اس سلسلے میں ہریانہ اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا موقف جاننے کیلئے پنچکولہ میں اس کے ہیڈ کوارٹرز میں اس کے افسران سے رابطے کی کوشش کی گئی مگر ان سوالات کا جواب دینے کیلئے کوئی افسر فون پر نہیں آیا۔ ان کے ماتحت افسران کا کہنا تھا کہ انہوں نے رپورٹر کی درخواست افسر تک پہنچا دی ہے مگر وہ بات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔