کمٹہ : چھوٹے آب پاشی محکمہ جات میں افسران کی شاطر دماغی سے 11کروڑ روپیوں کے گھپلہ کا الزام؛ 12دنوں میں ختم ہوئے 22کام
کمٹہ:27؍جولائی (ایس اؤ نیوز) کاروار کے ایک معروف کنڑا اخبار کی رپورٹ کے مطابق محکمہ چھوٹی آب پاشی کے منصوبوں کی دیکھ بھال ، انتظام و انصرام کے لئے حکومت کی طرف سے منظور کی گئی خطیر رقم 11کروڑروپیوں میں سے 11پیسے بھی خرچ نہ کرتےہوئے پوری رقم ہڑپنے کے واقعے کا دیر سے پتہ چلاہے۔ انتخابات کے پیش نظر جلد بازی میں کاموں کے لئے ٹینڈر بلایاگیا ہے۔
اخبار کا کہنا ہے کہ اترکنڑا ضلع کے 22کاموں کی دیکھ بھال کے لئے سال 2018-2019میں منظور کی گئی رقم کسی بھی کام کے لئے استعما ل کئے بغیر جعلی دستاویزات بناکر اپنی مرضی کے مطابق بل جمع کرکے پیسہ ہڑپ کئے جانے کا معاملہ ثبوتوں کے ساتھ ظاہرہواہے۔
رپورٹ کے مطابق فروری کے مہینے میں ٹینڈر بلایاگیا تھا 2019-03-06کو ٹینڈر پانے والا معاہدہ کیا گیاتھا۔ غورکرنے والی بات یہ ہے کہ اس کے بعد صرف 12دنوں میں یعنی 18-03-2018 کوسبھی 22کاموں کا پورا بل ادا کیاگیا ہے، لیکن کہیں بھی آپ کو کام ہونے کا کوئی نشان نہیں ملے گا اس کے باوجود سرکاری دستاویزات کے مطابق کام مکمل ہواہے۔ اسی طرح بل بھی ادا کیاگیا ہے۔ اس طرح محکمہ کے افسران نے ثابت کیا ہے کہ کس طرح سرکاری کاموں کو مکمل کئے بغیر بڑی بڑی رقمیں ہضم کی جاتی ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ محکمہ کی طرف جب ٹینڈر بلایاگیا تھا تو ٹینڈر کو محکمہ والوں نے اپنے ساتھ خاص تعلقات والوں کو ترجیح دیتے ہوئے سنگل ٹینڈر کو منظوری دی اور جو اہل ٹھیکداروں نے عرضیاں داخل کی تھی انہیں مسترد کردیا۔ یہاں کرناٹکا ریاست کے قانون ِشفافیت 2005کی صریح خلاف ورزی کرنےکے علاوہ سنگل ٹینڈر ہونےکے باوجود سرکاری نرخ سے 4.95فی صد زائد رقم کو منظوری دی گئی ہے۔
اپنی سہولت کے مطابق تیار کردہ محکمہ کی دستاویزات کے مطابق سبھی کام صرف 12دنوں میں پورے کرلئے گئےہیں۔ سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا اتنے کم دنوں میں اتنی بڑی رقم والے ٹینڈر کے کاموں کو مکمل کیا جاسکتاہے؟۔سوال اُٹھایا گیا ہے کہ ٹھیکدار وں نے کام کب شروع کیا؟ کب پوراکیا؟ افسران نے کس دن معائنہ کیا ؟ ایم ، بی کب لکھی گئی ؟ اتنی قلیل مدت میں کام ختم کرکے ، کس طرح سرکاری خزانوں کو لوٹا جاسکتاہے اس کے لئے یہ لوگ گواہ ہیں۔ ٹینڈر کے شروع ہونے سے لے کر ہرمرحلے میں گھپلہ بازی ہوئی ہے، ٹھیکداروں اور محکمہ جات افسرو ں کا ہرکام راز میں ہے۔ اخبار نے لکھا ہے کہ اتنا بڑا گھپلہ ہونے کے بعد بھی متعلقہ افسران کی خاموشی کئی شبہات کو جنم دے رہی ہے۔