گجرات فسادات کے قاتل گاندھی جی کا قتل کرنے کے بعد نظریات کو بھی قتل کرنے کے درپہ،کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھولنے لگا ہے۔از:سید فاروق احمدسید علی،

Source: S.O. News Service | By Safwan Motiya | Published on 16th January 2017, 12:06 PM | آپ کی آواز |

جب سے نریندردامور مودی نے اقتدار سنبھالا ہے تب سے ملک کے حالات میں جیسے بھونچال سا آگیا ہے۔ انہونی ہونی ہوتی نظر آرہی ہے۔وزیراعظم خود کو تاریخ کی ایک قدر آور شخصیت بنانے کے لئے پے درپے نت نئے فیصلے کرتے نظر آرہے ہیں۔ اس میں چاہے کسی کا بھلا ہو یا نقصان ہو ویسے نقصان ہی زیادہ ہورہا ہے۔ پہلے مودی جی ’’نئے فقیر کو بھیک کی جلدی کے مصداق‘‘پوری دنیا کی سیر کے لئے نکل پڑے۔ایک سفر مکمل ہوا نہیں کہ دوسرے دورہ کے لئے تیار نظر آتے تھے۔ اور ساتھ ہی ساتھ ملک کو ایک مضبوط ملک بنانے کے لئے ان دوروں پر مودی جی نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ملک میں اپنا پیسہ لگانے اور یہاں سرمایہ کاری کرنے کے لئے دعوت دی۔ مگر ابھی تک مودی جی کی سرمایہ کاری کی دعوت کو کسی بھی غیر ملکی کمپنی نے قبول نہیں کیا۔اس کے بعدانہوں نے کالے دھن کو جمع کرنے اور ملک کو ترقی کی راہ پر لانے کے لئے ایک انتہائی گھٹیا تاریخی فیصلہ نوٹ بندی کا کیا جس سے پورے ملک میں ان کی مذمت کی گئی جس میں کئی جانیں بھی گئی۔کئی آنہیں اور بددعاؤں سے لوگوں نے انہیں نوازا۔اس پر بھی ان کا بس نہیں ہوا انہوں نے اب ایک اور نیا کام مہاتما گاندھی کھادی گرام ادیوگ کے برانڈ امبیسڈر بن کر کیا۔کھادی دیہی صنعت کی جانب سے جاری کئے جانے والے سالانہ کیلنڈر اور ڈائریوں پر ہر سال مہاتما گاندھی کی تصویر شائع ہوتی رہی ہے لیکن اس مرتبہ 2017 کے کیلنڈر اور ڈائری سے ان کی تصویر غائب ہو گئی اور ان کی جگہ وزیراعظم مودی کی تصویر نے لے لی ہے۔مطلب مودی جی اپنے بھکتوں اور متروں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ دیکھومیں نے گاندھی جی کی جگہ لے لی ہے۔ اب مجھے بھی اسی طرح چاہو جس طرح سے آپ گاندھی جی کو چاہتے تھے۔واضح رہے کہ کھادی کمیشن کے دفتر کے باہر کچھ ورکروں نے ممبئی میں مہاتما گاندھی کی تصویر ہٹانے پر احتجاج کیا جبکہ کمیشن کے ایک افسر نے اس فیصلہ کو جائز ٹھہراتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال اکتوبر میں مودی نے لدھیانہ میں۵۰۰ چرغہ تقسیم کیا تھا چوں کہ یہ تاریخی لمحہ تھا اس لئے ان کی تصویر کو شائع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔اس سلسلہ میں کمیشن کے چیئرمین ونے کمار سکسینہ کا کہنا تھا کہ یہ حیران ہونے جیسی کوئی بات نہیں ہے اور پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ سکسینہ نے کہا کہ پوری مکمل کھادی کی صنعت ہی گاندھی جی کے فلسفہ، خیالات اور نظریات پر مبنی ہے۔ وہ کھادی دیہی صنعت کی روح جیسے ہیں۔ ایسے میں انہیں نظر انداز کئے جانے کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم مودی بھی طویل عرصے سے کھادی پہنتے ہیں، کھادی میں انہوں نے اپنا اسٹائل تیار کرتے ہوئے بڑی تعداد میں ہندوستانیوں سمیت غیر ملکیوں کو بھی اس کی طرف متوجہ کیا ہے اور وزیر اعظم مودی کھادی کے سب سے بڑے برانڈ امبیسڈر ہیں۔ ان کے میک ان انڈیا وڑن کے تحت کھادی دیہی صنعت گاؤں کو خود کفیل بنانے اور اِسکل ڈیویلپمنٹ کے ذریعے نوجوانوں کو روزگار دینے کی کوشش میں مصروف ہے۔ کھادی کے لئے نئی ٹیکنالوجی کا استعمال ہو رہا ہے۔
واہ کیا بات ہے گاندھی جی بننے کے لئے اتنا کافی ہے مودی جی تو پھرآپ کو ان بھکتوں کو جو اس طرح کے مشورہ پر آپ کو عمل کراتے ہیں ان تمام کواپنا علاج کرانے کی ضرورت ہے ۔ مودی جی آپ کے دل میں جو بھی آتا ہے بس وہ اسے کر گزرتے ہیں۔ ان کے اس خودساختہ ’’گاندھی جی بننے‘‘ کے تعلق سے اپوزیشن نے بھی خوب ہنگامہ کیا۔ مہاتماگاندھی کے پوتے تشار گاندھی نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کمیشن سے کہا ہے کہ ان تصویروں کو فوراً ہٹایا جائے ۔ممتا بنری نے کہا کہ مودی جی بابائے قوم کی توہین کررہے ہیں کانگریس نے کہا کہ مہاتما گاندھی کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔ تشار نے کہا کہ پہلے تو ۲؍ ہزار کے چند نوٹوں سے گاندھی جی کی تصویر ہٹائی گئی اور اب کھادی گرام ادیوگ کے کلینڈر او رڈائری سے گاندھی جی کی تصویر ہٹاکر۱۰؍ لاکھ کا سوٹ پہننے والے وزیراعظم کی تصویر لگادی گئی ہے۔صرف تصاویر بدلنے سے نظریات نہیں بدلا کرتے۔ مودی جتنا بھی بہتر کام کررہے ہوں لیکن وہ گاندھی جی کے نظریات کو نہیں مانتے ہیں اور یہ صرف مہاتما گاندھی کی میراث چھین لینے کی جانب ایک قدم ہے۔ کھادی خود کفالت کا ایک ذریعہ اور نشانی ہے جسے باپو نے زندہ کیا تھا لیکن اب انہیں ہے کہ الوادع کیا جارہا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے کھادی ادیوگ گرام نے اس کپڑے کو بے یارومددگار بنادیا ہے اور اب اسے مودی کے ذریعہ ابھارنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اب یہ باپو کاکھادی نہیں رہ گیا ہے۔اروند کیجریوال نے ٹویٹر کے ذریعہ کہا کہ گاندھی بننے کے لئے کئی جنموں کی ’’تپسیا‘‘ کرنی پڑتی ہے ،چرغہ کاتنے کی ایکٹنگ کرنے سے کوئی گاندھی نہیں بن جاتا بلکہ’’اپہاس کا پاتر‘‘ بنتا ہے۔راہل گاندھی نے کہا کہ نریندرمودی صرف دوسروں کے کئے اچھے کاموں کا کریڈیٹ خود حاصل کرنا چاہتے ہیں ایسا انہوں نے اس سے پہلے بھی کیا تھا۔جبکہ چرغہ کاتنا مہاتما گاندھی جی کے بالکل قریب تھا۔لالوپرساد یادو نے سخت رخ اپناتے ہوئے کہا کہ ہے رام! آر ایس ایس گینگ نے پہلے تو گاندھی جی کی ہتیا(قتل) کی اور اب یہ لوگ پوری طرح ان کے نظریات کا بھی قتل کرنے میں جٹ گئے ہیں۔او رکہا کہ جس کے اقتدار میں ہزاروں لوگ مارے گئے جس کی سوچ سچ اور آہنسہ کے پجاری باپو سے بالکل الگ اور الٹ ہے اور وہ آدمی آج باپو کی جگہ لینے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ 
۲۰۰۲گجرات فسادات کے قاتل کہاں اپنا مقام گاندھی جی سے ملانے کی کوشش میں لگے ہیں۔پتہ نہیں مودی جی اب گاندھی جی بننا چاہتے ہیں یا ان سے بھی بڑا یا پھر آج کے دور کا گاندھی بننا چاہتے ہیں۔ایک طرف محترم گاندھی جی ہے جنہوں نے ملک کے لئے اپنی جان گنوادی اور ان کی جان یہی مودی جی کے بھکتوں آر ایس ایس کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ہمارے وزیراعظم ملک کی کونسی ترقی کا خواب دیکھ رہے ہیں پتہ نہیں ترقی تو پتہ ہیں مگر لوگ بے چینی وکرب کی زندگی جینے پر مجبور ہوتے جارہے ہیں۔ عوام میں مودی جی کی ہر ایک ادا اور ان کے کاموں کی خوب چرچا ہوتی رہتی ہے چاہے وہ ساری دنیا کی سیر کی بات ہو، من کی بات ہو،کالے دھن کو لانے کے لئے نوٹ بندی کی بات ہو یا پھرمہاتما گاندھی جی کی جگہ چرخہ چلانے کی بات ہو اس بات کو سوشل میڈیا نے خوب اچھا لا ہے کسی نے کہا کہ کوا اب ہنس کی چال چل رہا ہے تو کسی نے کہا کہ مودی جی پھینکنا بہت آسان ہے لپیٹنا بہت مشکل ہے۔پھر کسی نے کہا کہ تصاویر اتارنے والا وزیراعظم کس طرح گاندھی بننے کی کوشش کررہا ہے۔ لیکن کسی نے سمجھداری سے چمٹی لیتے ہوئے کہا کہ مودی جی دن رات چرخہ چلائیں ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں مگر وہ مہاتما گاندھی جی کو ہٹاکر خود گاندھی بننے کی کوشش کریں گے تویہ بالکل نا انصافی ہوگی۔جیسے کالا سفید نہیں ہوسکتا ویسے بالکل مودی کبھی گاندھی جی نہیں بن سکتے۔لیکن کسی کا کیا جاتا ہے مودی جی کو ان کے متروں اور بھکتوں(آر ایس ایس) کو خوش کرنے کے سوا اور ملک کو ہندوراشٹر کی جانب دھکیلنے کے سوا اور کچھ نہیں آتا۔ میں سمجھتا ہوں شاید مودی پہلے ایسے زندہ وزیراعظم ہیں جنیں ان کی زندگی ہی میں اتنی ذلت جھیلنی پڑرہی ہے۔سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ اب آنے والے دنوں میں نوٹوں پر سے بھی گاندھی جی کی تصویر غائب ہونے والی ہے۔ہم تو بس اتنا کہیں گے کہ مودی جی آپ کو جو بھی کرنا ہے شوق سے کیجئے مگر اتنا خیال رہے کہ حد سے نہ گزرجائیے ورنہ پانچ سال کے بعد آپ یہ کہتے نظر آئیں گے۔                                                             جھوٹے وعدوں پرتھی اپنی زندگی        اب تو وہ بھی آسرا جاتا رہا

ایک نظر اس پر بھی

تبلیغی جماعت اور اس کے عالمی اثرات ..... از: ضیاء الرحمن رکن الدین ندوی (بھٹکلی)

​​​​​​​اسلام کا یہ اصول ہے کہ جہاں سے نیکی پھیلتی ہو اس کا ساتھ دیا جائے اور جہاں سے بدی کا راستہ پُھوٹ پڑتا ہو اس کو روکا جائے،قرآن مجید کا ارشاد ہے۔”تعاونوا علی البرّ والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان“

سماجی زندگی میں خاندانی نظام اور اس کے مسائل۔۔۔۔۔۔از: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

 سماج کی سب سے چھوٹی اکائی خاندان ہوتا ہے، فرد سے خاندان اور خاندان سے سماج وجود میں آتا ہے، خاندان کو انگریزی میں فیملی اور عربی میں اُسرۃ کہتے ہیں، اسرۃ الانسان کا مطلب انسان کا خاندان ہوتا ہے جس میں والدین ، بیوی بچے اور دوسرے اقربا بھی شامل ہوتے ہیں، خاندان کا ہر فرد ایک ...

تحریک آزادی اور امارت شرعیہ۔۔۔۔۔۔از: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

امارت شرعیہ کے اکابر نے غلام ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے جو جہد کی، وہ تاریخ کا روشن باب ہے،ترک موالات، خلافت تحریک اورانڈی پینڈینٹ پارٹی کا قیام تحریک آزادی کو ہی کمک پہونچانے کی ایک کوشش تھی، بانی امارت شرعیہ حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ(ولادت ...

بھٹکل: تعلیمی ادارہ انجمن کا کیسے ہوا آغاز ۔سوسال میں کیا رہیں ادارے کی حصولیابیاں ؟ وفات سے پہلےانجمن کے سابق نائب صدر نے کھولے کئی تاریخی راز۔ یہاں پڑھئے تفصیلات

بھٹکل کے قائد قوم  جناب  حسن شبر دامدا  جن کا گذشتہ روز انتقال ہوا تھا،   قومی تعلیمی ادارہ انجمن حامئی مسلمین ، قومی سماجی ادارہ مجلس اصلاح و تنظیم سمیت بھٹکل کے مختلف اداروں سے منسلک  تھے اور  اپنی پوری زندگی  قوم وملت کی خدمت میں صرف کی تھی۔بتاتے چلیں کہ  جنوری 2019 میں ...

تفریح طبع سامانی،ذہنی کوفت سے ماورائیت کا ایک سبب ہوا کرتی ہے ؛ استراحہ میں محمد طاہر رکن الدین کی شال پوشی.... آز: نقاش نائطی

تقریبا 3 دہائی سال قبل، سابک میں کام کرنے والے ایک سعودی وطنی سے، کچھ کام کے سلسلے میں جمعرات اور جمعہ کے ایام تعطیل میں   اس سے رابطہ قائم کرنے کی تمام تر کوشش رائیگاں گئی تو، سنیچر کو اگلی ملاقات پر ہم نے اس سے شکوہ کیا تو اس وقت اسکا دیا ہوا جواب   آج بھی ہمارے کانوں میں ...