سری نگر،2؍جولائی (ایس او نیوز؍ یو این آئی) شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ کے سوپور میں چہارشنبہ کی صبح سکیورٹی فورسز اور جنگجوؤں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں جاں بحق ہونے والے ایک عام شہری کی لاش پر بیٹھے اس کے 3سالہ نواسے (بعض خبروں کے مطابق پوتہ)عیاد جہانگیر کی سوشیل میڈیا پر بڑے پیمانے پر وائرل ہونے والی جگر سوز تصاویر نے ہر خاص و عام کو حواس باختہ کردیا ہے -
پی ڈی پی صدر و سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی صاحبزادی التجا مفتی نے ان تصویروں کے ردعمل میں اپنے ایک ٹویٹ میں کہاکہ دو طرح کے ویڈیوز گردش کررہے ہیں ایک ویڈیو میں دکھایا جارہا کہ تین سالہ بچے جس کے نا نا کو مارا گیا، کو بچایا جارہا ہے اور دوسرے ویڈیو میں دکھایا جارہا ہے کہ مہلوک کا بیٹا سی آر پی ایف پر اس کے باپ کو دن دھاڑے مارنے کا الزام عائد کررہا ہے - کشمیر میں سچائی بڑی شکار بن گئی ہے-
جموں وکشمیر اتحاد المسلمین کے صدر و حریت لیڈر مولانا مسرور عباس انصاری اپنے ایک ٹویٹ میں ان تصاویر کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اس بچے کی آنکھوں میں آنسو جگر کو پارہ پارہ کرتے ہیں - یہ حد درجہ تکلیف دہ ہے - میں اس تکلیف کو الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں -سماجی کارکن افتخار مسگر نے بچے کی دلسوز تصاویر پر اپنے ایک ٹویٹ میں ان الفاظ میں ردعمل کا اظہار کیا ہے کہ خدا کرے کوئی بچہ وہ حال نہ دیکھے جو اس بچے نے آج دیکھا، چہرے پر آنسوؤں کا سیلاب، ہاتھوں میں خون آلود بسکٹ، کپڑوں پر خون کے دھبے، کانپتا ہوا ننھا جسم- بربریت کی آخری حد، تصور سے پرے، کشمیر میں زندگی ختم ہوچکی ہے، ہم ماتم کناں ہیں اور اپنی باری کے منتظر ہیں -
صحافی ماجد حیدری اپنے ایک ٹویٹ میں یوں کہتے ہیں کہ خون آلود بسکٹ ہاتھوں میں لئے یہ بچہ اس بات سے بے خبر ہے کہ جویہ بسکٹ لایاتھا وہ مر گیا ہے، کشمیر میں ایک بچے کا بچپن یہی ہے -ایک اور صحافی رفعت عبداللہ نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہاکہ یہ سوپور کی دل دہلانے والی تصاویر ہیں، اس بچے نے سوپور میں اپنی آنکھوں کے سامنے نانا کو مرتے دیکھا-ایک اسکالر نے اپنا نام مخفی رکھنے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے یو این آئی اردو کو بتایا کہ شہری کی ہلاکت سے اس کی لاش پر معصوم بچے کے بیٹھنے کی تصاویر زیادہ جگر سوز اور دل دہلانے والی ہیں -
انہوں نے کہا کہ ان تصاویر کو سوشیل میڈیا پر بڑے پیمانے پرشیئر کرنا بھی کم تکلیف دہ نہیں ہے اس سلسلے کو بند کیا جانا چاہئے -سوشیل میڈیا پر ایک مختصر ویڈیو بھی وائرل ہوا ہے جس میں بچے کو پولیس گاڑی میں روتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے اور پولیس اہلکار اس کو منوانے کی کوشش کررہے ہیں -ادھر یہ تصاویر کس نے کھینچیں، یہ بھی ایک بہت بڑا سوال بن گیا ہے جس کا سی آر پی ایف ا ور پولیس دونوں انکار کررہے ہیں -سوشیل میڈیا پر یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ جب جائے واردات پر ان دو پارٹیوں کے بغیر کوئی موجود ہی نہیں تھا تو تصاویر کس نے لیں -دریں اثنا کئی لوگ جن میں سیاسی و صحافتی براداری سے وابستہ افراد بھی شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ سوشیل میڈیا پر ان تصاویر کو شیئر کرنے سے اجتناب کیا جانا چاہئے کیونکہ یہ زیادہ ہی دلآزاری کا باعث ہے اور جووینائل قانون کی بھی خلاف ورزی ہے -سوپور واقعے میں جاں بحق عام شہری کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ اس کو گاڑی سے گھسیٹ کر سی آر پی ایف اہلکاروں نے گولی ماری ہے اور بچہ کو اس کی لاش پر بٹھایا گیا جبکہ سوپور پولیس نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر سوشیل میڈیا پر ایسی خبریں پھیلانے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کی وارننگ دی ہے -