کاروار : جھوٹی خبروں اور افواہوں پر روک لگانے کی ضرورت ہے - ریٹائرڈ چیف جسٹس این وی رمن
کاروار،22 / جنوری (ایس او نیوز) کاروار کے ہندو ہائی اسکول کے 125 ویں سالانہ جلسہ کی تین دروزہ تقریبات کا افتتاح کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس ایم وی رمن نے کہا کہ انٹرنیٹ کا غلط استعمال کرکے سماج کا امن و امان بگاڑنے کی کوششیں ہو رہی ہیں ۔ یہ ایک خطرناک صورتحال ہے ۔ ہر جگہ افواہیں پھیلانے کا کام ہو رہا ہے ۔ اخلاقی اقدار اور ہر شہری کے ساتھ عدل و مساوات جیسے دستوری اصولوں کو مظبوطی سے تھامنے اور اس کا تحفظ کرنا ضروری ہے ۔
انہوں نے کہا کہ آج کے جدید دور میں انٹرنیٹ کے ذریعہ خبریں بہت ہی تیز رفتاری سے پھیل جاتی ہیں ۔ ایسے میں پھیلائی جارہی جھوٹی خبریں اور افواہیں صحت مندانہ سماج کے لئے ہلاک خیز ہوتی ہیں ۔ اس سے آپسی ہم آہنگی کا ماحول خراب ہوجاتا ہے ۔ ہم جیسے پڑھے لکھے افراد کو درست اور معتبر ذرائع سے آنے والی خبروں پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ دو حرف لکھنے پڑھنے سیکھنا ہی تعلیم کا مقصد سمجھنے کے بجائے ہمیں اس چوکھٹے سے باہر نکل کر سماجی ذمہ داریاں سمجھانے والی تعلیم بچوں کو فراہم کرنی چاہیے ۔ صرف نصابی تعلیم کو ہی اعلیٰ تعلیم سمجھا جا رہا ہے ۔ طالب علم کی جانچ کے لئے صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس نے نصابی سبق کس حد تک یاد کیا ہے ۔ مگر یہ حقیقی تعلیم نہیں ہے ۔
سابق چیف جسٹس نے زور دے کر کہا کہ ہر قسم کی تعلیم میں آئین کے اصولوں کو شامل رکھنا چاہیے ۔ مخلصانہ سوچ کو فروغ دینے کی تربیت ہونی چاہیے ۔ سماج کے لئے نقصان دہ تعلیم و تربیت سے دور رہنا چاہیے ۔ ملک میں جو کچھ ہوا ہے اور جو ہو رہا ہے اس کے بارے میں بچوں کو آگاہ رہنے کی طرف راغب کرنا چاہیے ۔ طلبہ کے اندر ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ ، انسانیت نوازی، اخلاص جیسے اوصاف ہونے چاہئیں ۔ نصاب تعلیم میں مساوات ، باہمی بقاء اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا پیغام شامل کیے جانے کی صورت میں ہی بچوں کا باشعور شہری بننا ممکن ہو سکے گا ، کیونکہ موجودہ نظام تعلیم سے یہ تبدیلی ممکن نہیں ہے ۔
سیںئر ایڈوکیٹ دیو دت کامت ک ستائش :اس موقع پر کاروار سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے معروف سینئر ایڈوکیٹ دیو دت کامت کے تعلق سے ستائشی کلمات پیش کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس این وی رمن نے کہا وہ ایک عقلمند اور بڑے ہی با صلاحیت وکیل ہیں ۔ آئین کے ساتھ جڑے رہ کر اپنے دلائل پیش کرنے کا طریقہ وہ کبھی نہیں چھوڑتے ۔ جب میں ہائی کورٹ کا جج تھا تو انہوں نے میرے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا ۔ اُس وقت مجھے میری ان کی جان پہچان نہیں تھی ۔ ہندو اسکول کے وہ ایک سابق طالب علم ہیں ، یہ بڑے فخر کی بات ہے ۔