کاروار: سمندر میں غذاکی کمی سے مچھلیوں کی افزائش اورماہی گیری کا کاروبار ہورہا ہے متاثر۔ ۔۔۔۔۔ایک تجزیاتی رپورٹ
کاروار،6؍ستمبر (ایس او نیوز) ساحلی علاقے میں مچھلیوں کی افزائش میں کمی سے اس کاروبار پر پڑنے والے اثرا ت کے بارے میں مختلف ماہرین نے اپنے اپنے اندازمیں تبصرہ اور تجزیہ کیا ہے۔کاروار ہریکنترا مینو گاریکے سہکاری سنگھا کے صدر کے سی تانڈیل کا کہنا ہے کہ ندیوں سے بہتے ہوئے سمندر میں جاکر ملنے والا پانی بہت زیادہ گندا ہوتا ہے اس سے مچھلیوں کو مناسب غذا نہیں مل رہی ہے ، اور ان کی افزائش نسل میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ سال در سال مچھلیوں کی پیداوار میں کمی آتی جارہی ہے اور اس وجہ سے ماہی گیری کا کاروبار بری طرح متاثرہونے لگا ہے۔
صابن اور کیمیکل کا استعمال : انہوں نے بتایا کہ ہر سال یکم اگست سے جب ماہی گیری کا نیا سیزن شروع ہوتا ہے تو مچھیرے اچھی کمائی ہونے اور اپنی مشکلات دور ہوجانے کی دعائیں کرتے ہیں۔لیکن ہر سال ان کی مایوسی اور خسارے میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔تانڈیل کا کہنا ہے کہ :’’اب انسانوں کی آبادی بڑھ گئی ہے۔ کپڑے دھونے اور نہانے کے لئے صابن اور گاڑیاں دھونے کے علاوہ دیگر کاموں کے لئے صابن او رکیمیکل کا استعما ل بہت ہی زیادہ ہوگیا ہے۔یہ زہریلا پانی ندیوں سے ہوتا ہوا سیدھے سمندر میں پہنچ جاتا ہے۔ ندیوں اور سمندر کے پانی میں موجود مچھلیوں کی افزائش پر اس کے برے اور نقصان دہ اثرات پڑنا فطری بات ہے۔‘‘
ندویوں پر ڈیم بھی ایک مسئلہ: انہوں نے مزید بتایا کہ’’ ضلع شمالی کینرا کی شراوتی اور کالی جیسی اہم ندیوں پر ڈیم باندھے گئے ہیں۔برسات کی مقدار زیادہ ہوجانے پر یہاں سے بڑی تیز رفتاری کے ساتھ پانی چھوڑا جاتا ہے۔ ڈیم کے قریبی علاقوں میں مچھلیوں کی غذا کے طور پر موجود چھوٹی چھوٹی مچھلیاں اورکیڑے پانی کے تیز بہاؤ میں بہہ جاتے ہیں۔ اور سمندر تک پہنچنے سے قبل ہی وہ مرجاتے ہیں۔دوسری طرف ڈیم کا پانی چھوڑنے پر اوپری سطح سے پانی سمندر کی طرف بہتا ہے۔ نچلی سطح پر موجودچھوٹی مچھلیاں ، بیکٹیریا اور دوسرے آبی جاندار ڈیم کے اُس طرف ہی رہ جاتے ہیں۔ اس سے سمندر کے اندر پائی جانے والی مچھلیوں کو ان کی قدرتی غذا نہیں مل پاتی ہے ۔ اور وہ غذائی قلت کا شکار ہوجاتی ہیں۔‘‘
سمندری طوفان سے نقصان : تانڈیل نے ایک اور مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دو تین برسوں سے سمندری طوفانوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اور یہ بھی ماہی گیری کے کاروبار کو خسارے کی طرف لےجانے کا سبب ہوا ہے۔ کیونکہ ماہی گیر ایک بارگہرے سمندر میں اترتے ہیں تو گجرات سے کیرالہ تک پھیل جاتے ہیں۔ اورجب سمندری سطح میں اچھال آجاتا ہے تو کشتیاں فوری طور پر ساحل کی طر ف واپس موڑ لی جاتی ہیں۔ اور جب ایک دفعہ طوفان اٹھتا ہے تو سمندر کی سطح کو نارمل ہونے میں کم ازکم پندرہ دن کا وقت لگ جاتاہے۔ ایسے میں کنارے لوٹے ہوئے ماہی گیروںکو دوبارہ اپنے لئے مچھلیوں کےٹھکانے تلاش کرنے میں دقت پیش آتی ہے اور وقت بھی بہت ضائع ہوجاتا ہے۔ اس سے کاروبار بری طر ح متاثر ہوتا ہے۔
اس بات کا اندازہ محکمہ ماہی گیری میں دستیاب اس اشاریے سے لگایا جاسکتا ہے کہ ضلع شمالی کینرا میں سال 2018-19 کے دوران 1.33لاکھ میٹرک ٹن مچھلیوں کا شکار کیا گیا تھا، جبکہ سال 2019-20 کا حساب دیکھیں تو 1.10لاکھ میٹر ک ٹن مچھلیاں شکار کی گئی ہیں۔
غیر سائنٹفک ماہی گیری : ادھر شمالی کینرا مچھلی فروش تنظیموں کے فیڈریشن کے صدر گنپتی مانگریکر نے اس مسئلے پر یوں اظہار خیال کیا کہ ’’ملک میں مچھلیوں کی افزائش متاثر ہونے کا بڑا سبب غیر سائنٹفک طریقے سے مچھلیوں کا شکار کرنا ہے۔مچھلیاں پکڑنے کے لئے چھوٹے خانوں والے جال ، بُل ٹرالر، لائٹ فشنگ وغیرہ پر پابندی رہنے کے باوجود اس پر عمل نہ کیاجانا ہی اصل مسئلہ ہے۔ حکومت کو اس ضمن میں سخت اقدامات کرنے چاہئیں۔لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ حکومتیں ماہرین کی رائے اور مشورے کو نظر انداز کرتے ہوئے سیاسی مفاد کے لئے من مانے طریقے سے مچھلیوں کا شکار کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔5سال قبل فیصلہ کیا گیا تھا کہ نئی ماہی گیر کشتیوں کے لئے اجازت نہیں دی جائے گی۔ مگر اس کا انجام کیا ہوا؟ جوماہی گیر نہیں ہیں ایسے لوگ مچھلیوں کی تجارت میں اتر آئے ہیں۔ایسی غلط پالیسی کے لئے تمام پارٹیوں کی حکومتیں ذمہ دار ہیں۔کسی بھی قیمت پر ایسے لوگوں کو ماہی گیری کی اجازت نہیں دینی چاہیے، جن کا اصل پیشہ ماہی گیری نہیں ہے۔‘‘
ملک کی قدرتی دولت کا نقصان : ساحلی آبی جانداروں کے ریسرچ سینٹر کے ذمہ دارڈاکٹر جگن ناتھ راتھوڈکا کہنا ہے:’’ سمندر میں غیر سائنٹفک طریقے سے جال بچھاکر مچھلیوں کاشکار ہویا پھر ندیوں میں انڈ ےدینے کے لئے محفوظ جگہ تلاش کرکے پہنچنے والی مچھلیوں کو بارودی دھماکہ سے مارنا ہو،جب تک اس کو روکا نہیں جائے گاتب تک یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔‘‘انہوں نے مزید بتایا کہ سمندر میں مچھلیوں کے شکار کے لئے تیز روشنی کا استعمال کرنے سے مچھلیوں کو دن اور رات کا فرق ہی معلوم نہیں ہوتاہے۔اور انہیں انڈے دینے کے لئے زیریں سطح تک جانے کے سلسلے میں الجھن ہوتی ہے۔اس طرح ان کی افزائش نسل بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ سمندر میں بچھانے جائے والے جال بھی سائنٹفک طریقے کے ہونے چاہئیں جن سے چھوٹی مچھلیاں جا ل کے اندر پھنسنے نہ پائیں اور آسانی کے ساتھ باہر نکل سکیں۔ مگر اکثرلوگ ایسا نہیں کررہے ہیں۔ساحلی علاقے میں ماہی گیری کرنے کے لئے بہار ، اوڈیشہ، یوپی، مغربی بنگال جیسے علاقوں سے آنے والے مزدوروں کوشامل کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ کمیشن پانے کے لالچ میں چھوٹی مچھلیوں کو بھی نہیں چھوڑتے۔اس طرح چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کو مارنا یہ ملک کی قدرتی دولت کا بڑا نقصان ہے۔‘‘