کاروار:پی ایس آئی کے نام سے فیس بک پر نقلی اکاؤنٹ۔ آن لائن دھوکہ دہی کا نیا طریقہ ۔ تیزی سے چل رہا ہے فراڈ کا کاروبار
کاروار،5؍ستمبر (ایس او نیوز) ڈیجیٹل بینکنگ اور بینک سے متعلقہ کام کاج انٹرنیٹ کے ذریعے انجام دینے کی سہولت اس لئے عوام کو فراہم کی گئی ہے تاکہ لوگ کم سے کم وقت میں بغیر کسی دقت کے اپنی بینکنگ کی ضرورریات پوری کرسکیں ۔ نقدی ساتھ لے کر گھومنے اور پاکٹ ماری کے خطرے جیسی مصیبتوں سے بچ سکیں۔لیکن اس سسٹم نے جتنی سہولت اور آسانی بینک کے گاہکوں کو دی ہے کچھ اس سے بھی زیادہ اس کا فائدہ دھوکے باز وں اور جعلساز وں کو ہورہا ہے۔
لوگوں کے لیے سہولت بن گئی ہے آفت: حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کو دی جانے والی اس سہولت کی وجہ سے دن بدن آن لائن دھوکہ دہی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔اور حد تو یہ ہے کہ آن لائن دھوکہ دہی کرنے والے گروہوں کی طرف سے اب عام آدمی کو اپنے مکر وفریب کا شکار بنانے اور مالی نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ محکمہ پولیس کے افسران ، فوجیوں اور سیاست دانوں کو بھی اپنے جال میں پھانسنے کے واقعات عام ہورہے ہیں۔ اس سے ایک اور قدم آگے بڑھاتے ہوئے اب ان جعلسازوں نے فوجیوں اور پولیس افسران کے نام سے نقلی سوشیل میڈیا اکاؤنٹس بناکر لوگوں کو ٹھگنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ کچھ اسی قسم کاایک تازہ واقعہ کاروار شہر میں بھی پیش آیا ہے۔
پی ایس آئی کے نام سے مدد کی درخواست: موصولہ رپورٹ کے مطابق آن لائن فریب کاروں نے کاروار دیہی پولیس اسٹیشن کے سب انسپکٹر ریونّا سدپّا کے نام سے فیس بک پر اکاؤنٹ بنایا۔اس پیج کے پروفائل پر پی ایس آئی ریونّا کا اصلی فوٹو بھی چسپاں کیا، اور پھر ان کے جان پہنچان والوں کو ’دوستی کا پیغام ‘(فرینڈ ریکویسٹ ) بھیجا۔پھر مسینجر ایپ کے ذریعے چیاٹ کرکے اس دھوکے باز وں نے پی ایس آئی کے بہروپ میں ان لوگوں کو بتایا کہ ’میں بڑی مشکل میں ہوں اس لئے فوری طور پر مجھے 10ہزار روپے کی سخت ضرورت ہے۔آپ میری مدد کریں۔‘اس طرح اصرار کرنے پر پی ایس آئی کے بعض جانکار افراد نے کال کرنے والے کے کھاتے میں رقم جمع کروادی۔لیکن کچھ لوگوں کو شبہ ہواکہ شاید یہ جھوٹ اور دھوکا بازی کا معاملہ ہو۔ اس لئے انہوں نے براہ راست پی ایس آئی ریونّا کو فون کرکے دریافت کیا۔ معاملے کی جانکاری ملتے ہی پی ایس آئی ریونّا نے فیس بک پر رپورٹ کرنے کے علاوہ سائبر کرائم ڈپارٹمنٹ کے توسط سے نقلی فیس بک اکاؤنٹ کو بلاک کروالیا۔ پی ایس آئی نے بتایا کہ میں نے جعلسازوں کی طرف سے میرے نام پر نقلی فیس بک اکاؤنٹ سے میرے دوستوں کو ٹھگنے کی یہ بات اپنے اعلیٰ افسران کے علم میں لائی ہے۔سائبر کرائم شعبہ میں شکایت درج کی گئی ہے اوران جعلسازوں کے بارے میں تحقیقات کی جارہی ہے۔
فوجی کے نام سے نیوی افسر کو دھوکہ: کاروار کا یہ پہلا معاملہ نہیں ہے۔ اس سے قبل استعمال شدہ ضروری چیزوں کےآن لائن فروخت کے لئے معروف ویب سائٹ ’او ایل ایکس‘ پر ایک دھوکہ باز نے اپنے آپ کو فوجی بتاتے ہوئے اپنے فوٹو اور شناختی کارڈ کے ساتھ یہ اشتہار دیا کہ وہ اپنا موٹر بائک 25ہزار روپے میں فروخت کرنا چاہتا ہے۔آن لائن خریدی کا آفر دیتے ہوئے اس نے موٹربائک کی تصویر بھی پوسٹ کردی۔ یہ دیکھ کر کاروار بحری اڈے پر تعینات ایک نیول آفیسر نے اس سے رابطہ کیا اور 25ہزار روپے بائک کے لئے بھیج دئے۔ پھر اس شخص نے فون کرکے نیول آفیسر کو بتایا کہ میں نے بائک روانہ کردی ہے۔ اب آپ کے موبائل فون اسکرین پر جوچار عدد کا نمبر(اوٹی پی)آیا ہے وہ بتادیں۔ اور اس نیول آفیسر نے بغیر کسی جھجھک کے وہ نمبر فون کرنے والے کو بتادیا۔اس کے بعد بس پلک جھپکتے ہی نیول آفیسرکے بینک اکاؤنٹ سے 1لاکھ روپے نکالے جانے کا مسیج فون پر موصول ہوا۔اس سے حیران رہ جانے والے نیوی آفیسر نےسائبر کرائم شعبے میں شکایت درج کروائی۔
کالج پروفیسر کو بھی ٹھگ لیا گیا: کاروار شہر سے ٹھگی کاایک اور معاملہ ایک میڈیکل کالج پروفیسر کے ساتھ پیش آیا۔یہ بھی او ایل ایکس ویب سائٹ کا ہی واقعہ بتایا جاتا ہے۔ پروفیسر نے اپنا صوفہ فروخت کرنے کا اشتہار اوایل ایکس پر ڈال دیا۔ آن لائن دھوکہ بازوں نے صوفہ خریدنے میں دلچسپی دکھاتے ہوئے پروفیسر سے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس گوگل پے ایپ ہے؟ تو پروفیسر نے جواب دیا کہ نہیں میرے پاس گوگل پے ایپ نہیں ہے۔ فون کالر نے ان سے کہا کہ میں نے آپ کے فون پر گوگل پے سے ’ریکویسٹ ‘ بھیجی ہے اس کو ’او کے‘ کردو۔ پروفیسر کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس کی بات پر عمل کیا اور دوسرے ہی لمحے ان کے بینک کھاتے سے 30 ہزار روپے کی رقم اڑالی گئی۔پروفیسر صاحب نے بھی سائبر کرائم پولیس کا درواز ہ کھٹکھٹایا ہے۔
ضلع میں 40سے زائد معاملات : ضلع شمالی کینرا میں2018سے اب تک اس آن لائن دھوکہ بازی کے 40 سےزائدواقعات پیش آ چکے ہیں۔اورجعلسازی کاشکار ہونے والے لوگوں نے اب تک کروڑوں روپے گنوائے ہیں۔ جبکہ پولیس نے اب تک صرف20 لاکھ روپے ملزموں کے پاس سے برآمد کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ زیادہ تر واقعات میں ’او ٹی پی‘،فیس بک، او ایل ایکس کے ذریعےسے ٹھگنے کا کام کیا گیا ہے۔گمان یہ بھی ہے کہ دھوکہ کھانے والے افراد میں ایسے لوگ بھی بڑی تعداد میں ہونگےجنہوں نے اپنے ساتھ پیش آئے ہوئے معاملے کی خبر کسی کو نہ دی ہوئی اور پولیس میں شکایت بھی درج نہیں کروائی ہو۔
ملزموں کو تلاش کرنا آسان نہیں: ضلع شمالی کینرا میں اے ٹی ایم، کریڈٹ کارڈ، ڈیبیٹ کارڈ وغیرہ کی معلومات حاصل کرکے لوٹنے کے معاملات میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔اس طرح لوگوں کے لاکھوں روپے لوٹے گئے ہیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ بینک گاہک اگر لوٹے جانے کے 24 گھنٹے کے اندر شکایت درج کروائے تو 40%رقم واپس ملنے کے امکانات باقی رہتے ہیں۔چونکہ بہت سے فریب کار متعلقہ بینک کے نام پر ہیلپ لائن کےذریعے موبائل فون نمبر رجسٹر کرلیتے ہیں اس لیے ایسے دھوکے بازوں کو آسانی سے پکڑنا ممکن نہیں ہوتا۔پھر بھی ضلع شمالی کینرا کے پولیس افسران نے ایسے معاملات کی تفتیش میں ایک حد بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ اب تک کاروار ، کاروارسی برڈ نیول بیس،ڈانڈیلی میں ایک ایک اور انکولہ میں دو آن لائن دھوکہ دہی معاملوں کو حل کرلیا گیا ہے اوران 5معاملات میں راجستھان سے تعلق رکھنے والے 4ملزمین کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔
’ریموٹ اسکرین ایکسیس‘ سے دھوکہ دہی: دھوکہ باز گروہ زیاد ہ تر موبائل فون سے آن لائن بینکنگ یا ڈیجیٹل ادائیگی کرنے والوں کو ٹھگنے کے لئے ’ریموٹ اسکرین ایکسیس‘ ترکیب کا استعمال کرتے ہیں۔اس طرح وہ لوگ نہ صرف بینک اکاؤنٹ سے رقم نکالتے ہیں ، بلکہ آن لائن شاپنگ کے آرڈر دینے اور دوسری ادائیگی کرنے کا کام انجام دیتے ہیں اور متعلقہ افراد کے بینک کھاتے سے خریداری کا بل اور دوسرے اخراجات کے زمرے میں رقم منہا ہوجاتی ہے۔ اورکھاتے دار کو جب تک اس فراڈ کی خبر ہوتی ہے تب تک اکثر وبیشتر بڑی رقم کھاتے سے نکالی جاچکی ہوتی ہے۔ یا کبھی کبھی پورا کھاتہ ہی خالی ہوجاتا ہے۔
بیرونی ریاستوں سے چل رہا ہے کاروبار: محکمہ پولیس کا کہنا ہے کہ آن لائن فراڈ کا یہ کاروبار زیادہ تر کرناٹکا سے باہرجھارکھنڈ ، بہار، چھتیس گڑھ، اتر پردیش، مغربی بنگال، دہلی، راجستھان جیسی دوردراز ریاستوں میں بیٹھ کر چلایا جارہا ہے ۔اس میں بھی جھارکھنڈ کے نکسل وادی علاقے سے زیادہ بڑے پیمانے پرفراڈ انجام دئے جارے ہیں۔ ملک کے کسی بھی کونے میں بیٹھ کر دھوکے بازی اور جعلسازی سے رقم اڑانے والے آج کل سرکاری افسران کو بڑی تعداد میں نشانہ بنارہے ہیں۔اور عام طریقہ کار یہی ہے کہ انجان آدمی بینک کا آفیسر بن کر فون کرتا ہے اور اے ٹی ایم کی میعاد ختم ہونے اور نیا کارڈ فراہم کرنے کےنا م پر کھاتے کی تفصیلات معلوم کر لیتا ہے اور پھراوٹی پی کے ذریعےکھاتے سے رقم خالی کردی جاتی ہے۔اس کے علاوہ ای میل اور بینک کے ذریعے مسیج کے نام پر بھی تفصیلات حاصل کرکے لوگوں کو لوٹنے کا کار وبار پورے ملک میں چل رہا ہے۔
اسے بے ہوشی کہیں یا بے وقوفی !: بینکوں اور محکمہ پولیس کی جانب سے عوام کو چوکنا اور اپنے بینک کھاتے یا اے ٹی ایم کارڈ وغیرہ کی تفصیلات کسی بھی شخص سے موبائل فون ، مسیج یا ای میل کے ذریعے شیئر نہ کرنے کی بار بار تاکید کیے جانے کے باوجود روزانہ درجنوں افراد ایسے فریب کاروں کے جھانسے میں آجاتے ہیں اور پل بھر میں اپنی جمع پونجی گنوا دیتے ہیں۔اب اگر اس کو بے وقوفی کی انتہا اور دیکھتے بھالتے گڈھے میں گرنا نہیں تو اور کیا کہا جاسکتا ہے۔