کاروار: کورونا جانچ رپورٹ میں نگیٹیو اور پوزیٹیو کا جھنجھٹ۔ عوام کے لئے بن رہا ہے ایک بڑا سنکٹ!
کاروار،21؍جولائی (ایس او نیوز) کورونا وباء کے ساتھ بہت ساری الجھنیں اور پیچیدگیا ں بھی ایسی ہیں کہ جن کے چلتے عوام میں شکوک شبہات کا پیدا ہونا فطری بات ہے اور یہی چیز منفی سوچ کے ساتھ اینٹی پروپگینڈا کر نے والوں کے لئے بھی بڑی کارآمد ہوتی ہے۔
ملک کے مختلف مقامات پر جانچ رپورٹ میں گڑبڑی کی شکایات سنی جارہی ہیں۔ کچھ لوگ اسے سازش اور جان بوجھ کر عوام کو ہراساں کرنے کا سلسلہ سمجھتے ہیں تو کچھ لوگ اسے ڈاکٹروں، اسپتالوں اورسیاست دانوں کا گورکھ دھندا قرار دیتے ہیں۔اب ان باتوں میں کتنی سچائی ہے یہ ایک لمبی تفتیش کا موضوع ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جانچ رپورٹ میں بعض دفعہ گڑبڑیاں ہورہی ہیں اور یہ چیزمتاثرین یا مریضوں کے لئے ذہنی الجھن اور پریشانی کا سبب بن رہی ہے۔ اس طرح کی نگیٹیو اور پوزیٹیو کی مشتبہ رپورٹس کے معاملات ہمارے قریبی جنوبی کینرا کے منگلورو، اڈپی ضلع سے آرہے ہیں اوراسی پس منظر میں اب ہمارے اپنے ضلع شمالی کینرا کی کاروار میڈیکل کالج اسپتال سے منسلک لیباریٹری میں جانچ کے بعد جورپورٹس آرہی ہیں اس پر بھی لوگ شکوک و شبہات کااظہار کرنے لگے ہیں۔
سب سے بڑی تکنیکی سچائی یہ ہے کہ ابھی تک جو اینٹی جین ٹیسٹ یا ریپیڈ ٹیسٹ کٹس دستیاب ہیں جس سے وائرس کی جانچ ہوتی ہے اس سے ملنے والی رپورٹس بالکل درست (accuracy) ہونے کی شرح جو ہے وہ30%اور45%کے درمیان ہے۔ اس کامطلب 55%معاملات میں جانچ رپورٹ غلط ہونے کے امکانات ہیں۔ جبکہ لیباریٹری میں جو جانچ ہوتی ہے اور جس پر اسپتالوں میں اعتبار کیا جاتا ہے اس میں رپورٹ بالکل درست ہونے کی شرح 90% ہے۔ جس کامطلب یہ ہے کہ وہاں بھی 10% مریضوں کی جانچ رپورٹ غلط ہونے کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔
رپورٹس غلط ہونے کا مطلب’فالس نگیٹیو‘ آنایا کبھی کبھار جو شخص متاثر نہیں ہے اس کی رپورٹ’فالس پوزیٹیو‘ آناہے۔’فالس نگیٹیو‘رپورٹ آنے کی صورت میں مشکل یہ ہے کہ اس مریض کے اندر کورونا وائرس موجود رہ سکتا ہے اور کچھ دنوں بعد وہ اپنا رنگ دکھا سکتا ہے۔ ایسے میں اس رپورٹ پر بھروسہ کرکے بے فکر رہنے والا آدمی خود بھی مزید پیچیدہ مرض کا شکار ہوسکتا ہے اور اس دوران وہ دوسرے صحت مند افراد کے اندر بھی مرض کے وائرس داخل کرنے کاسبب بن سکتا ہے۔
اس کے علاوہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ جس آدمی کوکورونا انفیکشن نہ رہنے کے باوجود اگر اس کی رپورٹ’فالس پوزیٹیو‘ نکلتی ہے تو اس سے اس آدمی کے علاوہ اس کے اپنے گھر والوں کے لئے بڑی مشکلات اور ذہنی الجھنیں کھڑی ہوجاتی ہیں۔بلاوجہ گھروں پر کوارنٹین کے پوسٹرس لگانے یا گھر سیل ڈاون کرنے لکڑیاں لگائے جانے سے علاقے میں ایک الگ تناؤ پیدا ہوجاتا ہے۔پھر رپورٹس کی بنیاد پرپوزیٹیو مان کر کووڈ میں داخل کیے جانے کی صورت میں وہاں پر حقیقی طور پر پوزیٹیو پائے جانے والے مریضوں سے رابطے کی وجہ سے صحت مند افراد کو بھی انفیکشن لگ جانے کے پورے امکانات ہوتے ہیں۔
اس مسئلے اور جھنجھٹ سے پوری طرح عوام کو نجات ملنا فی الحال ممکن نظر نہیں آتا، لیکن چونکہ ریپیڈ ٹیسٹ میں ہی فالس نگیٹیو آنے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں، اس لئے اینٹی جین ٹیسٹ کے بعد مریضوں کی جانچ آر ٹی پی سی کے ذریعے سے لیباریٹری میں کرتے ہوئے دوبارہ تحقیق کرنا ہی ا س کادوسرا راستہ ہے۔اور لیباریٹری ٹیسٹ رپورٹ میں بھی گڑبڑی کا شک ہونے پر دوبارہ دوسری لیباریٹری سے ہی ٹیسٹ کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔
کاروار میڈیکل کالج اسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر گجانن نائیک نے بتایا کہ کاروار کی لیباریٹری میں اس وقت آر ٹی پی سی آر مشین کے ذریعے ہی مریضوں کے نمونوں کی جانچ ہوتی ہے۔ اس سے قبل’ٹرونیٹ‘ مشین سے جانچ ہوتی تھی مگر اس کی رپورٹس میں گڑبڑی کو دیکھتے ہوئے اس طریقے کو چھوڑ دیا گیا ہے۔اور آئی سی ایم آر قوانین کے مطابق ہی کووڈ ٹیسٹ کیے جارہے ہیں، جس میں غلطی کے امکانات نہیں ہوتے۔اور یہاں پر ابھی تک ’فالس نگیٹیو‘ یا ’فالس پوزیٹیو‘ کے معاملا ت سامنے نہیں آئے ہیں۔