کرناٹک: جب پردہ عقل پر پڑ جائے۔۔۔۔۔۔از: اعظم شہاب

Source: S.O. News Service | Published on 7th February 2022, 10:01 PM | اسپیشل رپورٹس |

ہمارے مودی جی کی اس خوبی سے شاید ہی کوئی انکار کرسکے کہ رائی کو پربت بنانے اور بربت کے وجود سے انکار کرنے کا جتناعمدہ فن انہیں آتا ہے، اتنا شاید ہی کسی کو آتا ہو۔ وہ اس میں مہارت کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بیشتر اوقات ان کا یہی فن انہیں ملک ہی نہیں پوری دنیا میں شدید شرمندگی سے ہمکنار کر دیتا ہے اور ملک کو اس کی جو قیمت چکانی پڑتی ہے وہ الگ۔ مگر موصوف کو اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی، وہ جو بول دیئے بس بول دیئے اور جو ٹھان لیے بس ٹھان لیے۔ سرحد پر چین کی دراندازی پر اگر موصوف نے یہ فرما دیا کہ نہ ہی ہماری سرحدوں میں کوئی آیا اور نہ ہی ہماری کسی پوسٹ پر قبضہ کیا ہے تو یقینا ایسا ہی تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ پھر اس کے بعد لداخ میں چین نے پل تک تعمیر کر لیے اور ہماری کئی مربع کلومیٹر کے علاقے پر قبضہ کرلیا۔

لیکن اسی کے ساتھ موصوف کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ بہت سے ایسے معاملات میں خاموشی کا برت رکھ لیتے ہیں جو ان کی ذرا سی توجہ سے حل ہوسکتے ہیں۔ ان کی اس خوبی کی وجہ سے رائی پربت بن جاتی ہے۔ کسانوں نے تین زرعی قوانین کی واپسی کا مطالبہ کیا، تو اس پر خاموشی کا برت رکھ لیا۔ پھر جب پورے ملک میں شدید احتجاج ہوا اور سات سو سے زائد کسانوں کو اپنی جانیں گنوانی پڑیں تو جاکر موصوف نے اپنا خاموشی کا برت توڑا اور پھر انہوں نے آناً فاناً نہ صرف زرعی قوانین کی واپسی کا اعلان فرمایا بلکہ کسانوں سے معافی بھی مانگ لی۔ اگر یہی فیصلہ سال بھر قبل کرلیا ہوتا تو شاید یہ رائی پربت نہ بن پاتی۔ اس طرح کی درجنوں مثالیں ہیں۔ تازہ ترین معاملہ کرناٹک میں کچھ کالجوں میں حجاب پر پابندی کا ہے جس پر گزشتہ ایک ماہ سے احتجاج ہو رہا ہے۔ اب تو اس احتجاج میں سیاسی پارٹیاں بھی شامل ہوگئی ہیں جس سے یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔ اس مسئلے کو بھی بڑی آسانی سے آئین میں دی گئی شخصی آزادی کے حق کی روشنی میں حل کیا جاسکتا تھا، مگرنہیں! رائی کو پربت بنا دیا گیا اور پوری دنیا کو تنقید کرنے کا موقع فراہم کر دیا گیا۔

آخر اس طرح کے چھوٹے موٹے معاملات کو اس طرح کیوں نظرانداز کیا جاتا ہے کہ وہ پیچیدہ تر ہوجائیں؟ تو اس کا جواب اس اہنکار میں پوشیدہ ہے کہ جو پارلیمنٹ کی خوفناک اکثریت نے ہمارے پردھان سیوک میں پیدا کر دیا ہے۔ اس طرح کی چھوٹی موٹی باتیں ان کی توجہ کے لئے نہیں ہوتیں اور خاص طور سے وہ تو ہرگز نہیں ہوتیں جو ان کی یا ان کی پارٹی کی پالیسی کے مطابق ہو۔ ایسی صورت میں جبکہ ملک کے سب سے اہم صوبے اترپردیش میں انتخاب ہونے والے ہیں اور بی جے پی کے پاس عوام کے سامنے پیش کرنے کے لئے کوئی رپورٹ کارڈ نہ ہو تو اس طرح کے تنازعات کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے ذریعے مسلم دشمنی کا دھواں اٹھے گا اور پولرائزیشن کی لہر پیدا ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ایک ماہ سے کرناٹک میں بی جے پی کا حجاب کے نام پر ناٹک جاری ہے اور ہمارا قومی میڈیا اسے اس طرح پیش کر رہا ہے گویا حجاب پہننے والی طالبات کالج پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنی اس کوشش میں نہ صرف قومی میڈیا بلکہ حجاب کو تنازعہ بنانے والے اس بات کا ثبوت فراہم کر رہے ہیں کہ جس حجاب کے حق سے وہ مسلم طالبات کو محروم کرنا چاہتے ہیں وہ ان کے عقلوں پر پڑچکا ہے اور سوچنے سمجھنے کی بنیادی صلاحیت سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ اس تنازعے کو ہندو-مسلم کا رنگ دے دیا گیا اور بھگوا بریگیڈ کی جانب سے کالج کے دیگر طلباء کو بھگوا رومال کے ساتھ کالج بھیجا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کالج کو مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر اعتراض ہے تو پھر ہندو لڑکوں ولڑکیوں کے بھگوا رومال پہننے پر اعتراض کیوں نہیں؟ کیا حجاب ہی کالج کے ڈریس کوڈ کے خلاف ہے جبکہ کالج کا کوئی ڈریس کوڈ ہے ہی نہیں؟ دراصل مسئلہ حجاب کا نہیں ہے، اس ذہنیت کا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ حجاب کی مخالفت کرکے وہ مسلمانوں کی ایک شناخت کے خلاف آواز اٹھانے کے ’پنیہ کاریہ‘ میں ’سہبھاگی‘ ہو رہے ہیں۔ اب بھلا انہیں یہ کون سمجھائے کہ حجاب مسلمانوں کی شناخت ہی نہیں بلکہ اس ملک کی تہذیب بھی ہے۔ مسلمان کے یہاں عورتوں کا پردہ اگر حجاب کہلاتا ہے تو ہندو طبقے میں یہی پردہ تھوڑی بہت رعایت کے ساتھ گھونگھٹ بن جاتا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ حجاب پر پابندی کی بات کرنے والے کبھی گھونگھٹ پر روک لگانے کی جرأت کریں گے، ایسی صورت میں یہ اس ملک کی سنسکرتی کے خلاف قرار پائے گی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں پردے سے کوئی اعتراض نہیں ہے، اعتراض ہے تو صرف حجاب سے اور وہ بھی اس لئے کہ یہ مسلمانوں کے یہاں مروج ہے۔

لطف کی بات یہ ہے کہ حجاب سے تکلیف ان لوگوں کو ہے جو حجاب نہیں پہنتے۔ یہ تو بالکل ایسا ہی ہے کہ کوئی شوگر کا مریض کسی سے محض اس لئے نالاں رہے کہ وہ مٹھائی نہیں کھاتا۔ اب اس میں بھلا مٹھائی نہ کھانے والے کا کیا قصور ہے؟ وہ سمجھتا ہے کہ مٹھائی اس کے لئے نقصاندہ ہے تو وہ نہیں کھاتا۔ کرناٹک میں حجاب کے لئے احتجاج کرنے والی مسلم طالبات کہہ رہی ہیں کہ ہمیں حجاب پہننے دیا جائے، ہمیں حجاب سے کوئی تکلیف نہیں ہے لیکن کالج کا انتظامیہ اور حکومت کہتی ہے کہ آپ حجاب نہ پہنو، کیونکہ ہم بھی نہیں پہنتے اور آپ کے حجاب پہننے سے ہمیں تکلیف ہے۔عجیب منطق یہ ہے کہ ایک شخص کو روزہ رکھنے میں کوئی دشواری نہیں ہے مگر دوسرا اس لئے افطار پر ضد کر رہا ہے کہ وہ خود روزہ نہیں رکھتا۔ اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ پہننے پر روک لگائی جا رہی ہے لیکن اگر کوئی نہ پہنے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ وہ اس کا حق ہے۔ یعنی اگر کوئی برہنہ رہنا چاہے تو یہ اس کا حق ہے اور اگر کوئی اپنے بدن کو ڈھکے تو یہ منظور نہیں ہے۔ کوئی ایک لباس زیادہ پہنے تو اسے کالج میں گھسنے نہیں دیا جائے اور اگر کوئی ایک لباس کم کردے تو یہ اس کی آزادی ہے۔ یہ صورت حال دراصل اس منافرت والی ذہنی وبا کی پیداوار ہے جو اتفاق سے اس ملک میں 2014 کے بعد سے بڑھتی جا رہی ہے۔ ہمارے پردھان سیوک جی اس صورت حال کو نہایت آسانی سے قابو میں کرسکتے ہیں، لیکن ایسا کرنے کی صورت میں اس وبا سے متاثر لوگوں کی تعداد کم ہونے کا اندیشہ ہے جن کی تعداد میں ان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور جنہیں وہ اپنے اقتدار کی کنجی بھی سمجھتے ہیں۔ ملک میں یہ کمال کا ماحول بنانے کے لئے پردھان سیوک کو مبارکباد دینے کو جی چاہتا ہے۔

ایک نظر اس پر بھی

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...

اترکنڑا میں جاری رہے گی منکال وئیدیا کی مٹھوں کی سیاست؛ ایک اور مندر کی تعمیر کے لئے قوت دیں گے وزیر۔۔۔(کراولی منجاؤ کی خصوصی رپورٹ)

ریاست کے مختلف علاقوں میں مٹھوں کی سیاست بڑے زورو شور سے ہوتی رہی ہے لیکن اترکنڑا ضلع اوراس کے ساحلی علاقے مٹھوں والی سیاست سے دورہی تھے لیکن اب محسوس ہورہاہے کہ مٹھ کی سیاست ضلع کے ساحلی علاقوں پر رفتار پکڑرہی ہے۔ یہاں خاص بات یہ ہےکہ مٹھوں کے رابطہ سے سیاست میں کامیابی کے ...