کرناٹکا اسمبلی کے سابق باغی اراکین کی نااہلیت برقرار۔ لیکن انتخاب لڑ نے پر نہیں ہوگی پابندی۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ
نئی دہلی13/ نومبر (ایس او نیوز) سابقہ اسمبلی میں جن 17 کانگریس اور جے ڈی ایس اراکین نے بغاوت کی تھی، انہیں سپریم کورٹ سے تھوڑی سے راحت ملی ہے جس کا اثر ریاستی بی جے پی حکومت پر بھی پڑنے والا ہے۔
یاد رہے کہ کانگریس جے ڈی ایس کی مخلوط ریاستی حکومت کو گرانے کا سبب بننے والے14کانگریسی اور 3جے ڈی ایس اراکین اسمبلی کو اس وقت کے اسپیکر رمیش کمار نے ’دَل بدلی مخالف قانون‘ کے تحت جولائی میں نااہل قرار دیتے ہوئے ان کے 2023تک انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی لگائی تھی۔ اس کے خلاف باغی اور نااہل قرار دئے اراکین اسمبلی نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا اور نااہل قراردینے کے فیصلے کو منسوخ کرنے کی مانگ کی تھی۔جبکہ کانگریس اور جے ڈی ایس نے بھی عدالت سے رجوع کیاتھا اور اسپیکر کے فیصلے کی حمایت کی تھی۔
آج سپریم کورٹ میں جسٹس این وی مورتی کی قیادت والی سہ رکنی بینچ نے اس معاملے میں فیصلہ سناتے ہوئے ایک طر ف اسپیکر رمیش کمار کے اس فیصلے کو درست قرار دیا جس میں ان اراکین کو نااہل قرار دیا گیا تھا۔ البتہ انتخاب میں حصہ لینے پر لگائی گئی پابندی کو ہٹا دیا۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ”ایک جمہوری نظام حکومت میں اخلاقیات کی پابندی حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن پربھی لاگو ہوتی ہے۔“کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید یہ بھی کہا کہ ”درخواست گزاروں کوہائی کورٹ سے رجوع ہونا چاہیے تھا، مگر مخصوص حالات کی وجہ سے ہمیں اس پر شنوائی کرنی پڑی۔
اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ باغی اراکین بی جے پی کے ٹکٹ پر15سیٹوں پر ہورہے ؤ ضمنی الیکشن لڑ سکیں گے۔بی جے پی کو اپنی اکثریت بچانے کے لئے 15میں سے کم از کم 6سیٹیں جیتنا لازمی ہوگا۔وزیراعلیٰ ایڈی یورپا نے ان نااہل قراردئے گئے باغی اراکین کی ہمیشہ حمایت کی ہے اور خود انہوں نے ایک ویڈیو کلپ میں اقرارکیا ہے کہ پارٹی ہائی کمان کی اجازت سے یہ بغاوت کروائی گئی تھی۔ اس لئے اب ان اراکین کو ٹکٹ دے کر اپنا وعدہ پورا کرنا وزیراعلیٰ ایڈی یورپا کے لئے ضروری ہوگیا ہے۔لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ کانگریس اور جے ڈی ایس کے باغی اراکین کو بی جے پی کاٹکٹ دے کر جیت دلانا اور پھر ان سے کیے گئے وعدے کے مطابق وزارتی قلم دان سونپنا وزیر اعلیٰ کے لئے اتنا آسان بھی نہیں ہوگا۔ اس مسئلے پر خود بی جے پی کے اندر پہلے سے ہی کچھ اختلافا ت دیکھے گئے ہیں اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مخالفانہ لہر تیز ہونے کی پوری امید کی جارہی ہے۔