وقف بورڈ کی تشکیل میں حکومت کا ٹال مٹول جاری توہین عدالت کا مقدمہ دائر کرنے بورڈ کے اراکین کی تیاری
بنگلورو،5؍اکتوبر(ایس او نیوز) ریاستی حکومت کی طرف سے وقف بورڈ کی تشکیل کے لئے کرناٹک ہائی کورٹ کی طرف سے دو ہفتہ قبل سخت ہدایت دی گئی اور اس سے کہا گیا تھا کہ دو ہفتوں کے اندر وقف بورڈ کی تشکیل دے کر اس سلسلے میں عدالت کو مطلع کیا جائے لیکن اس میں لگتا ہے کہ شاید ریاستی حکومت ناکام ہو چکی ہے- ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق مکمل وقف بورڈ کی تشکیل اور بورڈ کو آزادی سے کام کرنے کا ماحول فراہم کرنے کے سلسلے میں واضح ہدایت کے باوجود ریاستی حکومت خاص طور پر محکمہ اقلیتی بہبود کی طرف سے اب تک کوئی کارروائی نہ ہونے کی اطلاعات کے درمیان اس ضمن میں ایک رٹ عرضی کے ذریعے ہائی کورٹ سے رجوع ہوکر وقف بورڈ کی تشکیل کے لئے حکومت کو ہدایت جاری کرنے کے لئے گزارش کرنے والے ریاستی وقف بورڈ کے سابق چیر مین ڈاکٹر محمد یوسف اور بورڈ کے دیگر اراکین انور پاشاہ، ڈاکٹر سید ناصر حسین، ایم پی اور سید آصف علی شیخ حسین نے اس سلسلے میں ریاست کے چیف سکریٹری وجئے بھاسکر اور محکمہ اقلیتی بہبود کے سکریٹری اور ریاستی وقف بورڈ کے اڈمنسٹریٹر اے بی ابراہیم اڈور کو ایک مکتوب روانہ کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فوری طور پر عدالت کے حکم کے مطابق وقف بورڈ تشکیل دیا جائے- اپنے مکتوب میں انہوں نے کہا ہے کہ ریاستی وقف بورڈ کے لئے چھ اراکین کے انتخاب کو 6ماہ سے زیادہ کا عرصہ پورا ہو چکا ہے اس سلسلے میں بارہا نمائندگی کے باوجود بھی حکومت نے جب کوئی کارروائی نہ کی تو انہیں اس معاملے میں عدالت سے رجوع ہونا پڑا - دو ہفتے قبل عدالت نے اس ضمن میں دائر عرضی کو فوری طور پر نپٹا تے ہوئے حکومت کو یہ ہدایت جاری کی تھی کہ دو ہفتوں کے اندر ریاستی وقف بورڈ کی تشکیل ہوجانی چاہئے- لیکن بدقسمتی سے اب تک حکومت اس پر کوئی بھی کارروائی کرنے سے قاصر ہے ان لوگوں نے اپنے مکتوب میں حکومت سے گزارش کی ہے کہ جلد از جلد وقف بورڈ کی تشکیل دے کر عدالت کے حکم پر عمل کیا جائے انہوں نے کہا کہ ایسا نہ ہونے کی صورت میں ان پر توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جا سکتی ہے اس کارروائی سے بچنے کے لئے بورڈ کے موجودہ کورم کی بنیاد پر ہی اسے تشکیل دیا جائے بورڈ کے باقی اراکین کی نامزدگی کانوٹی فکیشن بعد میں بھی جاری کیا جا سکتا ہے- موجودہ چھ اراکین کی تعداد پر مشتمل بورڈ بھی اگر تشکیل ہو جائے تو اس سے بورڈ کی میٹنگ کا کورم پورا ہو جائے گا-اس لئے بورڈ کی تشکیل بلا تاخیر ہونی چاہئے- ریاستی وقف بورڈ کے سابق چیر مین ڈاکٹر محمد یوسف نے جو وقف بورڈ کی تشکیل میں حکومت کی تاخیر کے خلاف عدالت سے بورڈ کے دیگر اراکین کے ساتھ رجوع ہوئے یہ بتایا کہ 18ستمبرکو ریاستی ہائی کورٹ نے ان کی عرضی پر احکامات صادر کئے تھے-عدالت کے فیصلے کی نقل کے ساتھ حکومت اور وقف بورڈ کو مطلع کیا گیا تھا کہ بورڈ کی جلد تشکیل کی جائے لیکن دو ہفتے گزرجانے کے بعد بھی اراکین کو نامزد کرنے بہانے سے ٹال مٹول جا رہی ہے- ریاست کی سابقہ کمارسوامی حکومت کے آخری دنوں میں وقف بورڈ کے لئے چار اراکین کو نامزد کیا گیا تھا اداروں کے زمرے سے اسلامیہ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے چیرمین او ر رکن کونسل نصیر احمد، سنی عالم کے زمرے میں مولانا مقصود عمران رشادی، شیعہ عالم کے زمرے میں میر عباس علی کو نامزد کرتے ہوئے احکامات جاری ہوئے تھے تاہم ریاست کے سیاسی حالات اچانک تبدیل ہو گئے اور کمارسوامی حکومت بے دخل ہوگئی اس کے بعد ایڈی یورپا کی قیادت والی بی جے پی حکومت نے اقتدار کیا سنبھالا کہ محکمہ اقلیتی بہبود اور وقف بورٹ کے متعلق امور پر غالب سرکاری افسر بے لگام ہو گئے- ایڈی یورپا نے اقتدار سنبھالتے ہی کمارسوامی حکومت کے دور میں آخری لمحات میں لئے گئے تمام فیصلوں پر روک لگادی جس کے سبب وقف بورڈ کے لئے چار اراکین کی نامزدگی کے حکم پر بھی روک لگ گئی- اس کے بعد ڈاکٹر یوسف اور دیگر اراکین نے عدالت سے رجوع کیا- دیکھنا ہے کہ آنے والے دور چار دنوں میں حکومت کی طرف سے وقف بورڈ کی تشکیل کے لئے کوئی کارروائی ہوتی ہے یا پھر ہائی کورٹ کی حکم عدولی پر بورڈ اور ریاستی حکومت کے خلاف مقدمہ چلایا جاتا ہے-
نادہندہ شخص کو وقف بورڈ کیلئے نامزد کرنے کی کوشش: اس دوران باخبر ذرائع سے ملی اطلاعات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ریاستی وقف بورڈ کی تشکیل دو ہفتوں میں پوری کرنے کے سلسلے میں ہائی کورٹ کی ہدایت کے بعد جس طرح بورڈ کی تشکیل دینے کے لئے حکومت نے ایک دو دن تک تیزی دکھائی تھی اچانک اس میں غیر معمولی سستی لاتے ہوئے بورڈ کے لئے چاراراکین کو نامزد کرنے کے لئے جو نوٹی فکیشن تیار کیا گیا تھا اس پر محکمہ کے سربراہ نے دستخط نہیں کئے ہیں - کہا جاتا ہے کہ اس نوٹی فکیشن میں وقف بورڈ کے لئے اداروں سے نمائندگی کے لئے گلبرگہ کی درگاہ خواجہ بندہ نواز ؒ کے سجادہ نشین خسروحسینی کا نام شامل تھا افسروں کے زمرے سے وقف بورڈ کے موجودہ چیف ایگزی کیٹیو افسر اصلاح الدین گڈیال کی اہلیہ اور کے ایم ڈی سی کی منیجنگ ڈائر کٹر عائشہ گڈیال کے علاوہ ایک شیعہ عالم اور رائچور سے ایک سنی عالم کے نام شامل تھے- تاہم معتبر ذرائع نے یہ انکشاف کیا ہے کہ اس نوٹی فکیشن کے ڈرافٹ میں تبدیلی کرکے اداروں کے زمرے میں سجادہ نشین خسرو حسینی کی جگہ پر ایک ایسی شخصیت کو نامزد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو چھ ماہ قبل متولی کے زمرے کے تحت کروائے گئے وقف بورڈ کے انتخابات میں میدان میں اتر کر بری طرح شکست سے دوچار ہوئی اور اس کے علاوہ اس شخضیت کی نگرانی میں جو تعلیمی ادارہ چل رہا ہے اس کی طرف سے وقف بورڈ کو ساڑھے چارکروڑ روپے سے زیادہ کا کرایہ واجب الادا ہے- ساتھ ہی ان کے خلاف وقف بورڈ میں ہی نو الگ الگ کیس درج ہیں - یہ شبہ ظاہرکیا جارہا ہے کہ ان کیسوں کو کمزور کرنے کے مقصد سے یہ شخصیت چور دروازے سے وقف بورڈ میں گھسنے کی کوشش میں ہے-وقف بورڈ کے امور پر غالب بعض افسروں کی ملی بھگت اور بھاری لین دین کے سبب نامزدگی یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے-