ریزرویشن معاملہ: حکومت کا تعصب ایک طرف لیکن مسلمان اپنے حقوق کی حصولیابی اورسرکاری اسکیمات سے فائدہ اٹھانے میں بھی ناکام۔۔۔۔ روزنامہ سالارکا تجزیہ
بینگلور 14 فروری: کرناٹک میں مختلف طبقات کی طرف سے ریزرویشن کی مانگ کو لے کر ماحول جس طرح دن بہ دن گرمی اختیار کرتا جا رہا ہے اسی درمیان یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ تمام طبقات کیلئے حکومت کی طرف سے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے ریزرویشن دینے کا وزیر اعلیٰ بی ایس ایڈی یورپا کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے۔
اس کے بعد یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ وزیر اعلیٰ نے کرناٹک کے پسماندہ طبقات کمیشن کو یہ ہدایت دی ہے کہ حکومت کی طرف سے کرناٹک میں سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق مقرر کردہ حد50فیصد میں رہتے ہوئے کس طرح تمام طبقات کے ریزرویشن کی مانگ کو پورا کیا جا سکتا ہے اس کیلئے ایک فارمولہ تیار کیا جائے- اس کے بعد سے پسماندہ طبقات کمیشن کی طرف سے اس کام کی شروعات ہو چکی ہے- اسی دوران جہاں یہ خدشات سامنے آرہے ہیں کہ ریزرویشن کی50فیصد حد میں اضافہ کر کے سپریم کورٹ کی حکم عدولی کے قانونی جھمیلے میں پھنسنے کی بجائے حکومت ایسے کسی آسان راستے کی تلاش کر رہی ہے کہ جن طبقات کی طرف سے ریزرویشن کی مانگ کی جا رہی ہے انہیں کسی حد تک مطمئن کیا جا سکے-اسی بنیاد پر ان خدشات کو تقویت مل رہی ہے کہ حکومت کی طرف سے مسلمانوں کو2Bکے تحت ملنے والے ریزرویشن سے چھیڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے-
اس ریزرویشن کے تحت بعض سرکاری محکموں میں تقررات مکمل ہو رہے ہیں بلکہ 4فیصد ریزرویشن کے بعد جنرل زمرے میں بھی مسلم امیدواروں کا انتخاب ان کے میرٹ کی بنیاد پر ہو رہا ہے- لیکن متعدد سرکاری محکمے اب بھی ایسے ہیں جن کی طرف مسلم امیدواروں کی توجہ نہیں گئی یا ان میں خالی پڑی ہوئی اسامیوں کو پر کرنے کے بارے میں ان تک معلومات نہیں فراہم کی گئیں -صورتحال یہ ہے کہ ان سرکاری محکموں میں اقلیتی نمائندگی نہ ہونے کے سبب مسلم ریزرویشن کا جو بیک لاگ ہے وہ مجموعی طور پر 1.5فیصد کے آس پاس مانا جا رہا ہے اس کو پر کرنے کیلئے سرکاری سطح پر سنجیدہ کوشش ابھی تک ندارد ہے-
سابقہ سدارامیا حکومت نے15 فروری2015کو ایک سرکاری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے تمام سرکاری محکموں کو یہ ہدایت جاری کی تھی کہ پسماندہ طبقات کو جو ریزرویشن دیا گیا ہے اس میں سے کوئی بھی بیک لاگ آسامی خالی نہ رکھی جائے اور اس کو اگلی بھرتی میں شامل کر کے اسے پہلے پر کیا جائے-لیکن اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ موجود ہ حکومت کی طرف سے اس حکم نامہ پر عمل کرنے کے سلسلہ میں تمام سرکاری محکمو ں کو سست روی برتنے کی ہدایت دی گئی ہے- نتیجہ یہ ہوا ہے کہ گزشتہ چند مہینوں سے جاری بھرتیوں کے عمل میں پسماندہ طبقات کے ریزرویشن کے تحت آنے والے2Bزمرے کے بیک لاگ کو پر کرنے کی جانب توجہ نہیں دی جا رہی ہے بلکہ امیدواروں کی بھرتی صرف تازہ ریزرویشن کی بنیاد پر کی جا رہی ہے-
اس کا ایک اور پہلو یہ بھی سامنے آیا ہے کہ جہاں محکمہ تعلیم میں مسلم ریزرویشن کا پورا استعمال ہو رہا ہے دیگرسرکاری محکموں میں اس کا استعمال نہیں ہو پا رہا ہے- محکمہ پولیس میں ریزرویشن ہونے کے باوجود بھرتی کے عمل میں مسلم امیدواروں کی حصہ داری 3فیصد سے آگے نہ جا سکی- اسی طرح دیگر سرکاری محکموں میں بھی مسلم امیدواروں کی بھرتی کا اوسط ریزرویشن کے مقررہ اوسط سے کم ہے-
حکومت اگر ریزرویشن کو کم کرنے کے بارے میں منصوبہ بنا سکتی ہے تو اس میں صرف حکومت کا تعصب ہی نہیں بلکہ اس کو حاصل کرنے میں مسلمانوں کی غفلت کا بھی دخل صاف نظر آرہا ہے- ایسا نہیں کہ تعلیم یافتہ امیدواروں کی کمی ہے لیکن سرکاری ملازمت حاصل کرنے میں ان کی رہنمائی نہ ہونے کے سبب شاید انہوں نے سرکاری ملازمت پر پرائیویٹ سیکٹر کو فوقیت دے دی- ان اسباب پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ریزرویشن کی سہولت کو حاصل کرنے میں دشواری کیا ہے- تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سرکاری ملازمت کی اہمیت کے بارے میں بیدار کیوں نہیں کیا جا رہا ہے اور اگر کیا جا رہا ہے تو پھر ریزرویشن میں بیک لاگ کیوں رہ گیا ہے- شاید اس بیک لاگ کے باقی رہ جانے کا فائدہ اٹھاکر حکومت ریزرویشن کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے-