کرناٹک کے بعض اضلاع میں این آر سی کے نفاذ کی مخالفت شروع، دکشن کنڑا کے ترقی پسندوں کی بائیکاٹ کرنے کی دھمکی، حکومت کے رویہ کی مذمت
مینگلور 7؍اکتوبر (ایجنسی/ایس او نیوز) آسام کے طرز پر کرناٹک میں بھی این آر سی نافذ کرنے کا ریاستی حکومت کا اعلان ریاست کرناٹک کے بعض اضلاع میں شدید مزاحمت کا سبب بن گیا ہے خاص طور پر دکشن کنڑا ضلع میں لوگوں نے ریاستی حکومت کی اس تجویز کی سخت مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے عوام کی مرضی کے خلاف ایسا کوئی عمل شروع کیا جاتا ہے تو ضلع میں ریاستی حکومت کے خلاف تحریک عدم تعاون شروع کی جائے گی۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ این آر سی کے تحت اندراج شروع کئے جانے کی صورت میں وہ اپنی دستاویزات پیش نہ کر کے اس مہم کا بائیکاٹ کریں گے۔
ذرائع سے ملی اطلاع کے مطابق ضلع کے لوگوں نے این آر سی کی مخالفت کے لئے سوشیل میڈیا کا راستہ اپنا کر اپنے جذبات کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے اور کہا ہے کہ یہ عمل صرف ایک مخصوص فرقہ کو نشانہ بنانے کے لئے کیا جارہا ہے، اس سے ملک کی شہریت کا کچھ لینا دینا نہیں بلکہ اس کے ذریعہ ایک فرقہ کو پریشان کرنا ہی مقصود ہے۔ مخالفت کرنے والوں میں مجاہدین آزادی کے خاندانوں سے وابستہ لوگ بھی شامل ہیں۔ دکشن کنڑا کی مختلف ترقی پسند تنظیموں نے این آر سی کی مخالفت کی ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ اندراج کے وقت دستاویزات نہ دے کر و ہ اس کے خلاف اپنا احتجاج درج کریں گے۔
حال ہی میں سرکاری ملازمت کو خیر باد کہنے والے آئی اے ایس آفسر کنن گوپی ناتھن نے این آر سی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستان میں رہنے والے ہر ہندوستانی کو بار بار اپنے ہندوستانی ہونے کا ثبوت پیش کرنے کی کوئی ضرورت یا مجبوری نہیں ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کا کوئی شہری ملک کا بنیادی باشندہ نہیں سوائے جنوبی ہند میں بسنےوالے ڈراوڈ باشندوں کے۔
تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ملک میں اونچ نیچ کا نظام رائج کرنے والے آریہ کہیں دوروسط ایشیا سے ہندوستان آئے اوراونچ نیچ کا نظام اس ملک میں رائج کر کے ان لوگوں نے ہزاروں سال تک ملک کے بنیادی پاشندوں کو روندا ہے اور اب بھی اپنا ظلم برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ کنن نے کہا کہ ان کے ساتھ اور بھی بہت سارے ترقی پسند ہیں جو این آر سی کے سخت خلاف ہیں وہ اس عمل میں حصہ نہیں لیں گے۔ اسی طرح ایک اور مجاہد آزادی بی وی ککی لایا کے فرزند سری نیواس ککی لایا نے کہا ہے کہ وہ این آر سی کے سخت خلاف ہیں، وہ این آرسی کے مرحلے میں اپنی دستاویزات حکومت کو نہیں دیں گے ، اگر حکومت چاہے تو ان کو ملک سے باہر نکال دے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست میں ہوسکتا ہے کہ کچھ ہزار یا زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ غیر ملکی باشندے مقیم ہوں گے، ان میں ایک لاکھ لوگوں کی نشاندہی کے لئے حکومت ریاست کے 6.5 کروڑ باشندوں کو ہراساں کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ این آر سی کے بہانے ریاستی حکومت مرکزی حکومت کی ایماء پر ریاست کے شہریوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کرناٹک کسی پڑوسی ملک بنگلہ دیش، چین یا پاکستان کی سرحد سے جڑا ہوا ہوتا اور این آر سی لاگو کیا جاتا تو ٹھیک تھا، انہوں نے پوچھا کہ کیا بنگلہ دیش، پاکستان یا چین سے کتنے باشندے کرناٹک میں داخل ہوئے ہوں گے ان کی نشاندہی کرنا کیا حکومت کے بس میں نہیں ؟ اگر ہے تو پھر کیوں ریاست کی مکمل آبادی کو ہراساں کیا جارہا ہے ؟