این آر سی کے نفاذ کے لئے ریاست کے اہم سرکاری محکمے کمربستہ، بنگلورو سے کام شروع کرنے کی تیاری،بنگالی مزدوروں پر ابھی سے امگریشن حکام کی نظر
بنگلورو،6؍اکتوبر(ایس او نیوز)کرناٹک میں آسام کے طرز پر نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس(این آر سی) تیار کرنے کے متعلق وزیر داخلہ بسواراج بومئی کے اعلان کے فوراً بعد ایسا لگتا ہے کہ ریاست کا سرکاری انتظامیہ این آر سی کے نفاذ کی تیاری میں مکمل طور پر مستعد ہو چکا ہے اور خاموشی کے ساتھ بنگلورو اور ریاست کے دیگر بڑے شہروں میں مقیم غیر ملکی باشندوں کے ساتھ ساتھ بنگالی اور دیگر شمال مشرقی زبانیں بولنے والے باشندوں پر نظر رکھنے کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ خاص طور پر بنگالی زبان بولنے والی مسلم آبادی بنگلورو کے علاوہ ریاست کے جن جن علاقوں میں آباد ہے ان علاقوں پر نظر رکھنے کے لئے ریاست کے امگریشن بیورو اور بیور و آف اسٹاٹسٹکس کی طرف سے پولیس حکام کو ہدایت دی گئی ہے۔ بنگلورو کے وہائٹ فیلڈ اور آس پاس کے علاقوں میں بنگال سے مزدوری کے لئے بنگلورو اور ریاست کے دیگر شہروں کا رخ کر چکے ہیں سیاسی جماعتوں خاص طور پر بی جے پی کا الزام ہے کہ بنگالی بولنے والے یہ غریب مزدور جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے بنگلہ دیشی ہیں۔ متعدد بنگالی بنگلورو میں روزانہ اجرت پر کام کرتے ہیں ان میں اکثریت ان مزدوروں کی ہے جو صاف صفائی کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں اور جھونپڑ پٹیوں میں بسے ہوئے ہیں۔ چونکہ ان میں سے اکثر کے پاس شہریت کی پکی دستاویزات بھی نہیں ہیں ان کو شبہ ہے کہ انہیں کسی بھی وقت این آر سی کے نفاذ کی آڑ میں غیر ملکی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس بات کے خدشات بھی ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ بنگلہ دیشی قرار دینے کی کوشش میں مغربی بنگال سے بنگلورو کا رخ کرنے والے مزدروں کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ جس طرح آسام میں این آر سی کا نفاذ کیا گیا او ر وہاں امتیاز برتے جانے کی جو شکایات ابتدائی مراحل کے دوران سامنے آئیں بنگلورو اور ریاست کے دیگر علاقوں میں بھی لوگوں کا خدشہ ہے کہ اسی طرح کا امتیاز بالخصوص اقلیتی طبقات اور ان میں بھی خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ برتا جا سکتا ہے۔ ان خدشات کو پختہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس سے پہلے کہ ریاست میں این آر سی کے نفاذ کے متعلق قطعی فیصلہ ہو جائے۔ اس پر آنے والے بڑے خرچ کے متعلق مرکزی اور ریاستی حکومت کے درمیان مفاہمت ہو محض وزیر داخلہ بسواراج بومئی کے ایک بیان پر ریاست کا انتظامیہ اس کے نفاذ کے لئے اس قدر مستعد نظر آرہا ہے تو ریاستی حکومت کی طرف سے اگر باضابطہ اس کے نفاذ کی شروعات کی جاتی ہے تو اس کا عالم کیا ہوگا۔ امگریشن کے حکام کا کہنا ہے کہ بنگلورو میں سب سے زیادہ غیر قانونی در اندازوں کی تعداد ان باشندوں کی ہے جن کا تعلق افریقی ممالک سے ہے۔یہ باشندے بغیر دستاویزات کے یا ویزا کی مدت ختم ہوجانے کے بعد بھی شہر میں ہی مقیم رہ گئے ہیں۔ حکام کی طرف سے ان کی نشاندہی کر کے ان کو شہر سے نکالا جاتا ہے۔ ان شہریوں کو غیر ملکی در انداز قرار دے کر انہیں ڈٹنشن سنٹر بھیج دیا جاتا ہے اس کے لئے شہر کی مضافات نلمنگل میں ایک ڈٹنشن سینٹر بھی تعمیر کیا گیا ہے حالانکہ اب تک اس ڈٹنشن سینٹر کو استعمال میں نہیں لایا گیا ہے لیکن حکام کا کہنا ہے کہ این آر سی کے نفاذ کے بعد بنگلورو اور آس پاس کے اضلاع میں جن غیر ملکی در اندازوں کی نشاندہی کی جائے گی ان کو اس ڈٹنشن سینٹر میں قید کیا جا سکتا ہے۔ سرکاری افسرں کا کہنا ہے کہ ریاست میں این آر سی نافذ کرنے کے متعلق ریاستی حکومت کی طرف سے جیسے ہی احکامات صادر کئے جائیں گے اور اس کے لئے وقت کا تعین ہوگا اس کا نفاذ ریاست کی راجدھانی بنگلورو سے ہی شروع کیا جائے گا۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے این آر سی کے تحت شہریوں کے اندراج اور ان کو شہریت کی سند جاری کرنے کا کام شروع کیا جائیگا کہ بنگلورو میں سب سے زیادہ غیر ملکی در اندازوں کے موجود ہونے کے خدشات ہیں۔ ریاستی امگریشن بیورو نے این آر سی کی ترتیب کے سلسلے میں آسام کے حکام کے ساتھ رابطہ بھی کیا ہے تاکہ ریاست میں این آر سی کے لئے متعین ہونے والے سرکاری اسٹاف کی تربیت او ر اس کے طریقہ کار کے بارے میں مکمل جانکاری حاصل کی جا سکے دوسری طرف محکمہ مالیات کی طرف سے اس پر آنے والے خرچ کے متعلق تخمینہ سازی کا سلسلہ بھی چل پڑا ہے اور اس بات پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ ریاست میں این آر سی کے نفاذ کے لئے جو فنڈس صرف کئے جائیں گے اس میں ریاستی حکومت اور مرکزی حکومت کی حصے داری کتنی ہوگی۔