کرنا ٹک سے اٹھا حجاب تنازع طول پکڑتا جارہا ہے اور کرناٹک ہائی کورٹ اور وزیراعلی کی امن وامان قائم رکھنے کی اپیلوں کے باوجود تھمتا نظر نہیں آتا۔ پہلے یہ پری یونیورسٹی کالجوں تک محدود تھا لیکن ۱۵ فروری سے دسویں جماعت تک کھلنے والے اسکول بھی اس کی زد میں آگئے ہیں۔ بُری بات یہ ہوئی کہ مسلم طالبات اور اسٹاف کو گیٹ کے باہر ہی برقع اور حجاب اتارنے کا فرمان جاری کیا گیا، جسے کچھ نے مانا اور کچھ گھر لوٹ گئیں ۔ان میں وہ طالبات بھی شامل ہیں جن کے امتحانات شروع ہو چکے ہیں ۔خود ہی سوچئے کہ ان لڑکیوں پر کیا بیتی ہوگی جنہوں نے فرمان پر عمل کیا اور کیمروں میں قید کر لی گئیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی کو سر عام ذلیل کر کے دنیا کوتماشہ دکھانا۔ کھان - پان، رہن سہن پر پابندی کے بعد اب تعلیم کے بنیادی حق کو بھی ہندوتواوادی اپنی شرائط پر دینا چاہتے ہیں۔ اس صورت حال کے لئے ہم انتظامیہ کے ساتھ کورٹ کو بھی ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں مذہبی علامات پر پابندی لگانے اور یہ جاننے کے بعد کہ لڑکیوں کو گیٹ کے باہر روک دیا جاتا ہے، کورٹ اتنا تو کرسکتا تھا کہ فرمان پرعمل کرنے والی لڑکیوں کو ڈریسنگ روم کی سہولت مہیا کرتا۔ ۔ ایسانہ کر کے عدالت نے اپنے ارادے صاف کر دیئے ہیں۔
مسئلے کا ایک ممکنہ حل یہ بھی ہوسکتا تھا جس پر ۱۴ فروری کوعریضہ گزارلڑکیوں نے کورٹ کی توجہ مبذول کی۔انہوں نے اپیل کی کہ جس طرح مرکز کے کیندر یہ ودیالیوں میں یونیفارم کے رنگ کا حجاب استعمال کرنے کی اجازت ہے، وہ انہیں بھی دی جاۓ۔ لڑکیوں کا یونیفارم کے تعلق سے بنیادی اعتراض یہ ہے کہ داخلہ کے بعد جب وہ ۔ گزشتہ دو، تین برسوں سے حجاب پہنتی آئی تھیں تو کسی نے نہیں ٹوکا ، پھر ۵ فروری کو ایسی کیا قیامت ٹوٹی کہ طالبات اور ان کے والدین کو اعتماد میں لئے بغیر اچانک پابندی عائد کردی گئی ؟ وہ بھی ایسے وقت جب تعلیمی سال ختم ہونے میں دو مہینے باقی ہیں اور امتحانات ہور ہے ہیں یا ہونیوالے ہیں ۔سوال بھی ہے کہ حجاب جیسی بے ضرر شئے سے امن عامہ اور لا اینڈ آرڈر کو کیسے خطرہ لاحق ہوسکتا ہے؟ ظاہر ہے یہ اُس شرانگیز ذہنیت کی اپج ہے۔ جسے اسلام اور مسلمان ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ہندوسنسکرتی کا ڈھول پیٹنے والے ہندوتوا وادی نہیں جانتے کہ اوڑھنی ، حجاب، پردہ ، نقاب، گھونگھٹ اور چادر کا رواج صرف اسلام میں نہیں، ہندو مذہب میں بھی کسی نہ کسی شکل میں رائج ہے اور خواتین اس کے استعمال کو اپنے مذہب ،عقیدے اور تہذیب وثقافت کا حصہ سمجھتی ہیں۔اب اگر مسلم لڑکیاں اسے اپنے مذہب اور عقیدے کا حصہ سمجھتی ہیں تو اس میں ہرج کیا ہے؟ اگر سپریم کورٹ تمام ثبوت وشواہد کو ماننے اور اس اعتراف کے باوجود کہ بابری مسجد کسی مندر کوتوڑ کر نہیں بنائی گئی، ہندوفریقین کو ان کے عقیدے اور آستھا کی بنیاد پر کہ رام وہیں پیدا ہوۓ ، مسجد کی زمین سونپتا ہے تو اس منطق کا اطلاق حجاب کے معاملے میں کیوں نہیں کیا جاسکتا؟
حجاب تنازع کا اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ قومی سطح پر اس کے خلاف مظاہرے ہوئے جسے برادران وطن کا تعاون حاصل ہے۔ بین الاقوامی سطح پر تنظیموں اور دانشوروں کی طرف سے اس کی مذمت کی گئی جس سے ملک بدنام ہوالیکن حکومت نے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دے کر ٹال دیا اور وزیر مملکت برائے داخلہ نے حجاب کو خواتین کے حق میں بتا کر مردوں کی بالادستی والے مسلم سماج کے ظلم وستم سے تحفظ کا نام دیا۔ چند دنوں پہلے مودی نے سہارنپور ریلی میں طلاق ثلاثہ قانون کا ذکر کیا اور مسلم خواتین کو بااختیار بنانے کا کریڈٹ لیا لیکن نیا بھارت، سب کا ساتھ ، سب کا وکاس ، سب کا وشواش اور بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کا درس دینے والے پردھان سیوک اس وقت خاموش رہے جب کرناٹک میں باحجاب لڑکیوں کو کیمپس میں داخل ہونے سے روکا گیا اور گیٹ کے باہر برقع اور حجاب اتارنے پر مجبور کیا گیا۔ مودی کی غیرت اس وقت بھی نہ جاگی جب حجاب میں ملبوس تن تنہا مسکان خان پر کیسری شال لٹکائے بھگوائی غنڈے اس پرٹوٹ پڑنے کے لئے آگے بڑھے لیکن اس کے کڑے تیور دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے۔
یہ سلسلہ کب تک چلے گا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ سیاسی مبصرین اسے انتخابی ہتھکنڈہ بتاتے ہیں۔ ہم اس سے متفق نہیں ۔ معاملہ کورٹ میں ہے۔ فیصلہ جو بھی ہو، کسی ایک فریق کا اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کرنا طے ہے۔ اگر سپریم کورٹ سے فیصلہ حجاب کے حق میں آتا ہے تو شاہ بانوکیس کی طرح حکومت اکثریت کے بل پر اسے پارلیمنٹ میں رد کر دے گی۔ اگر فیصلہ حجاب کے خلاف جاتا ہے تو وہ مسلمانوں کو کسی نئے تنازع میں الجھا دے گی کیونکہ مسلمانوں کو نت نئے ہتھکنڈوں سے ہراساں کر کے انہیں خود سپردگی پر مجبور کرنا، ہندوتوا ایجنڈے کا جزولاینفک اور ہندوراشٹر کے قیام کا زینہ ہے۔ ہندوتواوادی اسلامی شناخت اور تشخص ، اسلامی علامات اور یادگاروں کو مٹانے کے درپے ہیں ۔ گڑگاؤں میں کھلے میدان میں جمعہ کی نماز کی سرکاری اجازت کے باوجود جس طرح کے ہنگامے ہوۓ اس کا غماز ہے۔ اتراکھنڈ کے وزیراعلی نے الیکشن میں کامیابی ملنے پر یونیفارم سول کوڈ کا بگل ابھی بجا دیا ہے جس کی حمایت میں بی جے پی لیڈروں کے بیانات آنے لگے ہیں۔اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شہریت (ترمیمی) قانون کی تلوار مسلمانوں کے سر پر ہمیشہ لٹکتی رہے گی۔
جاب تنازع کا اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ قومی سطح پر اس کے خلاف مظاہرے ہوئے جسے برادران وطن کا تعاون حاصل ہے۔ |
گزشتہ ہفتے اس کالم میں ہم نے بتایا تھا کہ کرناٹک حکومت نے پولیس کو اس بات کی تفتیش کا حکم دیا ہے کہ حجاب تنازع کے پیچھے ملک شمن عناصر کا ہاتھ تو نہیں۔ ہمیں خدشہ تھا کہ جلد یا بدیر اس کی گاج کسی تنظیم پرگرے گی۔ چنانچہ یہی ہوا۔ بتایا جا تا ہے کہ کورٹ میں جانے والی چاروں لڑکیاں حجاب تنازع سے پہلے پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی طلبہ ونگ کیمپس فرنٹ آف انڈیا سے رابطے میں تھیں۔ طالبات نے اس سے انکار کیا اور اعتراف کیا کہ وہ تنازع کے بعد رابطے میں آئیں۔اس میں کتنا سچ ہے اور کتنا جھوٹ کہا نہیں جاسکتا۔ اگر یہ سچ ہوتا تو بی جے پی اب تک آسمان سر پر اٹھالیتی ۔سوال یہ بھی ہے کہ اگر پی ایف آئی ایک انتہا پسندتنظیم ہے جس کا تعلق دہشت گرد تنظیموں سے ہیں تو حکومت نے اب تک اس پر پابندی کیوں نہیں لگائی؟ اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ان نامساعد حالات میں بھی مسلمانوں میں بیداری کی رمق کیوں نہیں پائی جاتی ؟ (بشکریہ: انقلاب، ممبئی۔ مورخہ17 فروری 2022)