پاکستانی شہریت کے الزام میں گرفتار بھٹکل کی خاتون کو کرناٹکا ہائی کورٹ سے ملی ضمانت
بھٹکل11/ نومبر (ایس او نیوز) تحقیقاتی ایجنسیوں کی طرف سے پاکستانی شہری ہونے کا الزام لگا کر بھٹکل سے جس خاتون کو گرفتار کرکے کاروار جیل میں بند رکھا گیا تھا ، اسے کرناٹکا ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہا کردیا ہے۔
ملزمہ کو ضمانت پر رہائی کا فیصلہ سناتے ہوئے ہائی کورٹ دھارواڑ بینچ کے جج شیو شنکر امرناور نے کہا : " ملزمہ کو محض شک کی بنیاد پر جیل میں قید نہیں رکھا جا سکتا ۔ وہ ضمانت پر رہا کیے جانے کے قابل ہے۔"
خیال رہے کہ خدیجہ مہرین (33 سال) اپنے ڈھائی سال کے بچے کے ساتھ گزشتہ 16 مہینوں سے جیل میں بند تھی ۔ ہائی کورٹ بینچ نے کہا: " ضمانت کی درخواست میں بتایا گیا ہے کہ عرضی گزار کے خلاف بظاہر کوئی کیس نہیں بنایا گیا ہے ۔ مگر بدقسمتی کی بات ہے کہ وہ شکایت کنندہ پولیس کے ہاتھ میں بلی کا بکرا بن گئی ہے اس لئے اسے شک کی بنیاد پر عدالتی تحویل میں رکھا نہیں جا سکتا۔"
بھٹکل پولیس نے 9 جون 2021 کو میجسٹریٹ کی اجازت سے خدیجہ مہرین کے گھر کی تلاشی لینے کے بعد گرفتار کیا تھا اور اس کا ادھار کارڈ، پین کارڈ، راشن کارڈ، ووٹر شناختی کارڈ سمیت دیگر دستاویزات ضبط کرلئے تھے۔ پولس نے الزام لگایا تھا کہ وہ پاکستانی شہری ہے جو 2014 سے بھٹکل میں مقیم ہے۔
پولس کا کہنا تھا کہ وہ کچھ ایجنٹوں کی مدد سے ملک میں داخل ہوئی تھی اور پولیس کو اطلاع ملنے کے بعد اسے فورینرز ایکٹ اور آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت گرفتار کیا تھا۔ اس کے بعد سے اس کی شہریت کا معاملہ بھٹکل کی پرنسپل سِوِل جج کی عدالت میں زیر سماعت ہے ۔
خدیجہ مہرین نے ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست داخل کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ 1988 میں بھٹکل میں پیدا ہوئی اور اس نے نونہال اسکول میں تعلیم حاصل کی ۔ اس کی شادی جاوید محی الدین رکن الدین کے ساتھ ہوئی تھی ۔ اس کی حراست کے دوران 22 اپریل 2022 کو اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا ۔ اس کے تین بچے ہیں جن کی عمر 7،5، اور 2.5 سال ہے اور یہ ڈھائی سال کا بچہ اس کے ساتھ جیل میں بند ہے۔
ہائی کورٹ جج نے اس درخواست پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا : "عرضی گزار/ ملزمہ پہلے ہی ایک سال چار مہینے سے عدالتی حراست میں ہے ۔ اور چونکہ عمر قید یا سزائے موت والے جرائم نہیں ہوئے ہیں اس لئے اسے طویل مدت تک قید میں رکھنا ضروری نہیں ہے ۔"
ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا : "اس کے خلاف جو الزام لگائے گئے ہیں اگر وہ ثابت ہوتے ہیں تو فورینر ایکٹ کے تحت اس کی سزا زیادہ سے زیادہ 5 سال کی قید اور آئی پی سی دفعات کے تحت زیادہ سے زیادہ 7 سال قید کی سزا ہے ۔ اس کے ساتھ 2.5 سال کا بچہ بھی جیل میں رہتا ہے ، اس لئے سخت شرائط کے ساتھ عرضی گزار/ ملزمہ ضمانت پر رہا ہونے کی اہل ہے۔
ملزمہ کے وکیل ایڈوکیٹ آفاق کولا نے بتایا کہ 20 اکتوبر کو ہائی کورٹ میں ضمانت منظور ہوئی تھی البتہ رہائی کا پروانہ 4 نومبر کو ملا اور 4 نومبر شام کو ہی کاروار جیل سے رہا ہوکر وہ بھٹکل اپنے گھر پہنچ گئی۔