کرناٹکا: دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات نے کئی نوجوانوں کی زندگیاں تباہ کردی۔ سلاخوں کے پیچھے سے آزاد فضا میں آنے والوں کی کچھ جھلکیاں ایک خصوصی رپورٹ

Source: S.O. News Service | Published on 22nd March 2021, 8:48 PM | ریاستی خبریں | اسپیشل رپورٹس | ملکی خبریں |

 ملک بھر میں گزشتہ دو تین دہائیوں میں پولیس اور خفیہ و تحقیقاتی ایجنسیوں کے ذریعے دہشت گردی کے جھوٹے الزامات لگائے جانے سے سیکڑوں مسلم نوجوانوں کی زندگیاں تباہ ہوگئی ہیں۔ اس زمرے میں کرناٹکا کے نوجوان بھی شامل ہیں۔

گجرات میں سیمینار:  مثال کے طور پر سید صادق عرف سمیر کا معاملہ دیکھیے۔ بنگلورو کے رہنے والا یہ نوجوان آل انڈیا مائناریٹی ایجوکیشن بورڈ کی طرف سے گجرات میں منعقدہ ایک سیمینار میں  شریک ہوا تھا۔ سیمینار کا دوسرا دن چل رہا تھا کہ سورت کی پولیس نے سیمینار کے مقام پر چھاپہ مارا اور ممنوعہ طلبہ تنظیم 'اسلامک اسٹوڈنٹس موومنٹ آف انڈیا' [سیمی] کے کارکن ہونے کا الزام لگاتے ہوئے جن 123مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا اس میں صادق عرف سمیر بھی شامل تھا۔ یہ دسمبر 2001 کی بات تھی۔ تب صادق عرف سمیر کی عمر 25 سال تھی۔ اور اب 20 سال بعد عدالت نے ان تمام ملزمین کو بے قصور قرار دیتے ہوئے بری کردیا ہے۔

 تفتیش کے دوران ٹارچر: صادق اُس دور کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گرفتاری کے بعد تفتیش کے دوران مجھے بری طرح ٹارچر کیا گیا۔ مجھ پر القاعدہ اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کا حصہ ہونے کا الزام لگایا گیا جن کے بارے میں میں نے کبھی سنا بھی نہیں تھا۔ یہ بالکل جھوٹا معاملہ تھا۔ غیر قانونی سرگرمیوں سے متعلقہ قانون [یو اے پی اے] کے تحت گرفتار کیے جانے کے ایک سال بعد صادق کو عدالت سے ضمانت حاصل کرنے میں کامیابی ملی۔ جس کے بعد وہ بنگلورو واپس لوٹے اور اپنی زندگی ازسرنو تعمیر کرنے کی کوشش شروع کی۔

شادی کے لیے رشتہ ملنا مشکل: 'ٹیررسٹ' یا 'دہشت گرد' کا ٹھپّہ لگنے کی وجہ سے  صادق کو شادی کے لئے رشتہ ملنا دشوار ہوگیا۔ پھر بڑی مشکل سے ایک دور کے رشتہ دار کے یہاں ان کی شادی ہوگئی۔ لیکن میکانیکل انجینئرنگ میں ڈپلومہ رہنے کے باوجود ایک فل ٹائم ملازمت حاصل کرنا کسی طور ممکن نہیں ہوا۔ دوسری طرف ان پر دائر جھوٹے مقدمہ کی وجہ سے ان کی زندگی قانونی چکّی میں پستی رہی۔ ہر مہینہ عدالت میں حاضری کے لئے بنگلورو سے سورت[گجرات] کا سفر کرنا زندگی کا حصہ بن گیا تھا۔

ایک اور کیس میں پھنسایا گیا: صادق دھیرے دھیرے بنگلورو میں اپنی زندگی کو معمول پر لانے میں کامیاب ہو ہی رہے تھے کہ فروری 2008 میں انہیں پھر ایک مرتبہ 'ہبلی سیمی سازش' معاملے میں دیگر 17 نوجوانوں کے ساتھ دہشت گردی مخالف قانون آئی پی سی اور دھماکہ خیز مادہ قانون کی دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا۔ اس کی وجہ سے صادق کو 3 سال دھارواڑ سینٹرل جیل میں گزارنے پڑے۔ جہاں سے 2011 میں ضمانت پر انہیں رہائی ملی۔

پولیس جان بوجھ کر پھنساتی ہے: صادق کہتے ہیں کہ " اس معاملے کی تحقیقات کرنے والے کرناٹکا پولیس کے تمام اعلیٰ افسران کو علم تھا کہ میں بے قصور ہوں۔ در اصل ایک پولیس آفیسر نے مجھ سے اعتراف کیا تھا کہ وہ میری بے گناہی سے باخبر ہے۔ لیکن پولیس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں کیونکہ اس معاملے کی رپورٹنگ بڑے پیمانے پر ہوئی ہے اور پولیس کو پھنسانے کے لئے کسی بلی کے بکرے کی ضرورت تھی ۔ چونکہ میرا نام پہلے ہی سورت کیس میں آ چکا تھا اس لئے ان کے لئے میں آسان نشانہ بن گیا۔"

عدالت کے چکروں میں زندگی دوبھر: ہبلی معاملہ میں 2011 میں ضمانت حاصل کرنے کے بعد صادق کے لئے دو محاذوں پر قانونی جنگ شروع ہوگئی۔ تب تک ایک بچے کے باپ بن چکے صادق کے لئے ایک طرف عدالت میں حاضری کے لئے ہر مہینہ سورت جانا پڑتا تھا۔ تو دوسری طرف ہبلی کیس فاسٹ ٹریک عدالت میں چلنے کی وجہ سے ہر ہفتے میں تین چار مرتبہ ہبلی عدالت میں جانا ضروری ہوگیا تھا۔ صادق پوچھتے ہیں کہ " ایسی صورت حال میں بھلا میں کوئی ملازمت یا بزنس کیسے شروع کر سکتا تھا؟"

طویل جدوجہد کے بعد ضمانت: خدا خدا کرکے جب 2015 میں عدالت نے ہبلی کیس میں تمام 18 ملزمین کو مقدمہ سے بری کردیا تو صادق کو تھوڑی سی راحت ملی تھی ۔ لیکن 'سورت کیس' میں سماعت 2021 تک جاری رہی۔ اور بالآخر سورت کورٹ کے چیف جوڈیشیل میجسٹریٹ نے تمام 127 ملزمین کو الزامات سے پوری طرح بری کردیا۔ جس کے بعد صادق نے گزشتہ 20 برس میں پہلی مرتبہ پوری طرح اطمینان کی سانس لی ہے۔ کیونکہ اب جا کر سماج میں اس کا کھویا ہوا وقار کچھ بحال ہوا ہے۔ اور اب وہ اپنے اوپر لگے دہشت گردی کے الزام کو یقین اور اعتماد کے ساتھ جھٹلا سکتے ہیں۔

 مالی اورسماجی دشواریوں کا سامنا : اس وقت عمر کے 45 ویں سال سے گزرتے ہوئے صادق کہتے ہیں " میں نہیں جانتا کہ میں نے اس عرصہ میں اپنی زندگی کیسے گزاری ۔ میری آدھی زندگی تباہ ہوکر رہ گئی ۔ مجھے بہت سارے مالی اور سماجی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ مجھے اپنے قانونی اخراجات پورے کرنے کے لئے بنگلورو کے گروپن پالیہ میں واقع آبائی مکان کو فروخت کرنا پڑا۔ میں جس مسجد میں نماز پڑھا کرتا تھا وہاں پر مجھے داخل ہونے سے روکا گیا۔"

پولیس افسران پر کارروائی ہو: صادق کا کہنا ہے کہ کوئی ایسا نظام ہونا چاہیے جس کے تحت جھوٹے کیس داخل کرکے لوگوں کی زندگیاں تباہ کرنے والے پولیس افسران کے خلاف کارروائی ہو اور انہیں  سزا دی جا سکے۔ اس کے علاوہ ایسے بے قصور ثابت ہونے والے ملزمین کو ہرجانہ ادا کیا جائے تاکہ پولیس افسران اس طرح کی کارروائیوں سے باز آئیں۔

صادق کا کیس منفرد تھا: اگر ہم دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات میں پولیس کی طرف سے مسلم نوجوانوں کو پھنسانے کے معاملات کا جائزہ لیں تو صادق کا کیس ایک منفرد کیس ہے جس میں انہیں دہشت گردی کے دو معاملات میں گرفتار کیا گیا اور خوش قسمتی وہ دونوں معاملات میں عدالت سے بری ہوگئے۔ کرناٹکا میں ایسے بہت سے معاملات ہیں جہاں پولیس نے مسلم نوجوانوں کو پھنسایا اور ایک عرصہ بعد عدالت نے انہیں تمام الزامات سے بری کردیا۔ مثال کے طور پر 'ہبلی سازش' کیس دیکھیں۔ اس میں صادق کے علاوہ 17 نوجوانوں کو ملزم بنا کر جیل میں ٹھونسا گیا تھا اور 8 سال قید میں رہنے کے بعد عدالت نے انہیں کیس سے بری کردیا۔ جبکہ اس معاملے میں استغاثہ کی طرف سے پیش کردہ 45 گواہوں نے پولیس کے بیان کے برخلاف گواہی دی تھی۔

میڈیکل کیریئر ہوا تباہ: ہبلی سازش کیس میں ملوث کیے گئے ڈاکٹر اللہ بخش ایڈواڈ کا معاملہ دیکھیے۔ وہ کرناٹکا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسس [کیمس] کا ایک محنتی طالب علم تھا۔ اور جب اسے 2008 میں گرفتار کیا گیا تھا تو وہ ایم بی بی ایس فائنل کے بعد انٹرشپ کے دورانیہ میں تھا۔ 2015 میں کیس سے بری ہونے تک سات سال اپنے اوپر دہشت گردی کا دھبہ لے کر جینا پڑا اور یہ بات اس کا میڈیکل کیریئر تباہ کرنے کے لئے کافی تھی ۔

دیگر خوفناک معاملات : اگر ہم تھوڑا پیچھے جا کر دیکھیں تو ہمیں نثارالدین اور ظہیر احمد جیسے کچھ بھیانک معاملے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ نثارالدین اور ظہیر احمد نامی دو بھائیوں کو دہشت گرد مخالف دستہ نے 1994 میں بم بلاسٹ معاملوں میں ان کا ہاتھ ہونے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ ظہیر نے ضمانت ملنے سے قبل 14 سال جیل میں گزارے جبکہ نثارالدین کو تقریباً 23 سال قید رہنے کے بعد 2016 میں رہائی ملی تھی۔

 مولانا شبیر کا معاملہ: اسی طرح کا ایک معاملہ بھٹکل کے مولانا شبیر گنگاولی کا ہے۔ انہیں چنّا سوامی اسٹیڈیم بنگلورو میں 2010 میں بم بلاسٹ کرنے کے معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں پہلے پونے میں نقلی نوٹ رکھنے کے جھوٹے معاملے میں پھنسا کر  قید کیا گیا اور اس کے بعد دہشت گردی کا معاملہ چپکا دیا گیا۔ یہ کیس منگلورو کی عدالت میں چلتا رہا اور 2017 میں عدالت نے ان کو دہشت گردی کے الزامات سے پوری طرح بری کر دیا۔

صحافی مطیع الرحمٰن کا معاملہ: مسلم نوجوانوں کی زندگیاں تباہ کرنے والی اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے صحافی مطیع الرحمٰن صدیقی نے کہا کہ  دراصل پولیس افسران کی یہ ذہنیت بن گئی ہے کہ مسلم نوجوان دہشت گردی کا میلان رکھتے ہیں اس لئے وہ ان پر مقدمات چلانے کے لئے بے چین رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے بے شمار مقدمات سامنے آئے ہیں۔

 صحافی پر بھی جھوٹا مقدمہ: مطیع الرحمٰن وہ صحافی ہیں جو بذات خود جھوٹے مقدمہ میں پھنسائے جانے کے اس مرحلہ سے گزر چکے ہیں۔ ان کو 2012 میں لشکر طیبہ اور حرکت الجہاد اسلامی جیسی تنظیموں کا رکن ہونے اور دائیں بازو کےہندو صحافیوں اور سیاست دانوں کو قتل کرنے کی سازش رچنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور 6 مہینہ جیل میں رہنا پڑا تھا۔ دہشت گردی مخالف قانون [یو اے پی اے] اور آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت دائر کردہ کیس میں جب عدالت نے کوئی بھی سچائی نہیں پائی تو مطیع الرحمٰن کو بری کردیا گیا۔

کیا کہتے ہیں اے پی سی آر کے ذمہ دار: جھوٹے مقدمات میں پھنسائے گئے بے قصور ملزمین کو قانونی امداد پہنچانے والے ادارہ ایسوسی ایشین فار پروٹیکشن آف سوِل رائٹس [اے پی سی آر] کے ریاستی جنرل سیکریٹری ایڈوکیٹ محمد  نیاز   اس پوری صورت حال کے لئے یو اے پی اے جیسے دہشت گردی مخالف قوانین کو الزام دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسلم نوجوانوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر ان کی زندگی تباہ کرنے کا اصلی سبب اور جڑ ایسے 'خونخوار' قوانین ہیں ۔ کیوں کہ ان قوانین کے تحت پولیس افسران کو شہریوں کے بنیادی حقوق پر ضرب لگانے اور خلاف ورزیاں کرنے کے لئے بہت ہی زیادہ اختیارات حاصل ہوجاتے ہیں۔ اور وہ بے گناہوں کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ 

(بشکریہ انگریزی میگزئن فرنٹ لائن۔۔ تحریر : وقار احمد سعید۔۔ اُردو ترجمہ  معمولی ترمیم و اضافے کے ساتھ : ڈاکٹر محمد حنیف شباب/ساحل آن لائن)

ایک نظر اس پر بھی

گھوٹالہ باز جناردن ریڈی کی بی جے پی میں شمولیت مودی حکومت کے بدعنوانی ختم کرنے کے دعووں کی قلعی کھول رہی: کانگریس

کانگریس نے 35 ہزار کروڑ روپے کے غیر قانونی خام لوہا کانکنی گھوٹالہ کے ملزم جناردن ریڈی کے بی جے پی میں شامل ہونے پر آج زوردار حملہ کیا۔ کانگریس لیڈر پون کھیڑا نے نئی دہلی واقع کانگریس ہیڈکوارٹر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گھوٹالہ باز جناردن ریڈی کی بی جے پی ...

منگلورو میں 'جاگو کرناٹکا' کا اجلاس - پرکاش راج نے کہا : اقلیتوں کا تحفظ اکثریت کی ذمہ داری ہے 

'جاگو کرناٹکا' نامی تنظیم کے بینر تلے مختلف عوام دوست اداروں کا ایک اجلاس شہر کے بالمٹا میں منعقد ہوا جس میں افتتاحی خطاب کرتے ہوئے مشہور فلم ایکٹر پرکاش راج نے کہا کہ ایک جمہوری ملک میں اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنا اکثریت کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔

تنازعات میں گھرے رہنے والے اننت کمار ہیگڈے کو مودی نے کیا درکنار

پارلیمانی الیکشن کے دن قریب آتے ہی اننت کمار ہیگڑے نے گمنامی سے نکل کر اپنے حامیوں کے بیچ پہنچتے ہوئے اپنے حق میں ہوا بنانے کے لئے جو دوڑ دھوپ شروع کی تھی اور روز نئے متنازعہ بیانات  کے ساتھ سرخیوں میں بنے رہنے کی جو کوششیں کی تھیں اس پر پانی پھِر گیا اور ہندوتوا کا یہ بے لگام ...

لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے اننت کمار ہیگڈے کو دکھایا باہرکا راستہ؛ اُترکنڑا کی ٹکٹ کاگیری کو دینے کا اعلان

اپنے کچھ موجودہ ممبران پارلیمنٹ کو نئے چہروں کے ساتھ تبدیل کرنے کے اپنے تجربے کو جاری رکھتے ہوئے، بی جے پی نے سابق مرکزی وزیر اور اُتر کنڑ اکے ایم پی، اننت کمار ہیگڑے کو باہر کا راستہ دکھاتے ہوئے  آنے والے لوک سبھا انتخابات میں  ان کی جگہ اُترکنڑا حلقہ سے  سابق اسمبلی اسپیکر ...

ٹمکورو میں جلی ہوئی لاشوں کا معاملہ - خزانے کے چکر میں گنوائی تھی  تین لوگوں نے جان

ٹمکورو میں جلی ہوئی کار کے اندر بیلتنگڈی سے تعلق رکھنے والے تین افراد کی جو لاشیں ملی تھیں، اس معاملے میں پولیس کی تحقیقات سے اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ خزانے میں ملا ہوا سونا سستے داموں پر خریدنے کے چکر میں ان تینوں نے پچاس لاکھ روپوں کے ساتھ اپنی بھی جانیں گنوائی تھیں ۔   

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...

اترکنڑا میں جاری رہے گی منکال وئیدیا کی مٹھوں کی سیاست؛ ایک اور مندر کی تعمیر کے لئے قوت دیں گے وزیر۔۔۔(کراولی منجاؤ کی خصوصی رپورٹ)

ریاست کے مختلف علاقوں میں مٹھوں کی سیاست بڑے زورو شور سے ہوتی رہی ہے لیکن اترکنڑا ضلع اوراس کے ساحلی علاقے مٹھوں والی سیاست سے دورہی تھے لیکن اب محسوس ہورہاہے کہ مٹھ کی سیاست ضلع کے ساحلی علاقوں پر رفتار پکڑرہی ہے۔ یہاں خاص بات یہ ہےکہ مٹھوں کے رابطہ سے سیاست میں کامیابی کے ...

مدھیہ پردیش اور مرکز کی بی جے پی حکومت خاتون، نوجوان اور کسان مخالف: جیتو پٹواری

 مدھیہ پردیش میں لوک سبھا انتخابات کی مہم زور پکڑ رہی ہے۔ کانگریس قائدین کی موجودگی میں شہڈول پارلیمانی حلقہ کے امیدوار پھندے لال مارکو اور منڈلا کے امیدوار اومکار سنگھ مرکام نے اپنے کاغذات نامزدگی داخل کئے۔ اس موقع پر کانگریس لیڈروں نے کہا کہ ریاستی اور مرکزی حکومتیں ...

عدلیہ کی سالمیت کو خطرہ قرار دیتے ہوئے 600 وکلا کا چیف جسٹس آف انڈیا کو مکتوب

عدالتی سالمیت کے خطرے کے حوالے سے ہندوستان بھر کے ۶۰۰؍ وکلاء جن میں ایڈوکیٹ ہریش سالوے اور بار کونسل آف انڈیا کے چیئرمین منن کمار شامل ہیں نے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچڈ کو مکتوب لکھا ہے۔ وکلاء نے ’’مفاد پرست گروہ‘‘ کی مذمت کی ہے جو عدالتی عمل میں ہیرا پھیری، عدالتی ...

ملک کی وزیر خزانہ نرملا سیتارمن کے پاس الیکشن لڑنے کے لیے پیسے نہیں!

ملک کے خزانے کا حساب و کتاب رکھنے والی وزیر خزانہ نرملا سیتارمن کے پاس الیکشن لڑنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ یہ انکشاف انہوں نے خود ہی کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی صدر جے پی نڈا نے مجھ سے لوک سبھا الیکشن لڑنے کے بارے میں پوچھا تھا مگر انہوں نے انکار کر دیا کیونکہ ان کے پاس الیکشن ...

مہوا موئترا نے ای ڈی کے سمن کو کیا نظر انداز، کرشنا نگر میں چلائیں گی انتخابی مہم

 ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) لیڈر مہوا موئترا نے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کے سمن کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ وہ آج کرشنا نگر لوک سبھا حلقہ میں انتخابی مہم چلائیں گی۔ انہیں دہلی میں ای ڈی کے دفتر میں پوچھ گچھ کے لیے حاضر ہونے کو کہا گیا تھا۔

دہلی میں شدید گرمی، درجہ حرارت 37 ڈگری سیلسیس تک پہنچا

 دہلی اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں درجہ حرارت میں اضافہ درج کیا جانے لگا ہے اور مارچ میں ہی گرمی نے اپنا زور دکھانا شروع کر دیا ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق بدھ کو قومی راجدھانی میں رواں سال کا گرم ترین دن ریکارڈ کیا گیا۔ دریں اثنا، زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 37 ڈگری سیلسیس تک پہنچ ...