بنگلورو:مورل پولیسنگ کی پشت پناہی والے بیان پر وکلاء کی انجمن نے دیا وزیر اعلیٰ بومئی کو نوٹس
بنگلورو،18/ اکتوبر (ایس او نیوز) کرناٹک کے وزیر اعلیٰ بسواراج بومئی نے حال ہی میں ہندوتواوادیوں کی طرف سے مورل پولیسنگ کے نام پر کی جارہی دھاندلیوں اور غنذہ گردی کی پشت پناہی کرنے والا جو بیان دیا تھا اس کے لئے وکلا کی انجمن 'آل انڈیا لائرس ایسوسی ایشن فار جسٹس" نے وزیر اعلیٰ کو نوٹس بھیجتے ہوئے معافی مانگنے اور اپنا بیان واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے ۔
خیال رہے کہ 13 اکتوبر کو جب وزیر اعلیٰ سے اخبار نویسوں نے ریاست میں بڑھتے ہوئے مورل پولیسنگ کے معاملات اور مورل پولیسنگ کے ملزمین کے ساتھ خود موڈبیدری سے بی جے پی ایم ایل اے اوماناتھ کوٹیان کھڑے ہونے کے بارے میں پوچھا تھا تو انہوں نے کہا تھا :" ہم سب کو سماجی ذمہ داری سنبھالنی چاہیے ۔ ہمارے نوجوانوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ سماج کے لوگوں کے جذبات مجروح نہ ہوں ۔ لوگوں کے کچھ شدید جذبات ہوتے ہیں ۔ اور جب بھی کوئی عمل ہوتا ہے تو پھر اس کا رد عمل ہوجاتا ہے ۔ یہ ایک سماجی مسئلہ ہے اور اس میں اخلاقیات کی ضرورت ہے ۔ جبکہ سماج میں اخلاقیات نہیں ہونگے تو اسی کے مطابق ردعمل بھی ہونگے ۔"
میڈیا میں آئی خبروں کے مطابق وکلاء اور وکالت کے طالب علموں کی انجمن آل انڈیا لائرس ایسوسی ایشن فار جسٹس نے وزیر اعلیٰ کو جو نوٹس بھیجا ہے اس میں انہیں مخاطب کرکے کہا گیا ہے کہ "ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے والی بات کہہ کر آپ نے مورل پولیسنگ کے عمل کو جائز ٹھہرایا ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ شہریوں کو ردعمل کی مناسبت سے اپنے بنیادی حقوق سے دستبردار ہونا چاہیے ۔"
ایسو سی ایشن کے نوٹس میں فرقہ وارانہ منافرت اور تشدد کے بڑھتے ہوئے حالیہ سلسلہ اور بیلگام میں ہوئے مسلم نوجوان ارباز کے انتہائی بے دردانہ قتل کے پس منظر میں وزیر اعلیٰ کے بیان کو حیران کرنے والا قرار دیا گیا ہے۔ مذہبی گروہوں کی طرف سے برپا کیے جارہے تشدد کو سماجی تفریق اور علاحدگی کا سبب بتاتے ہوئے اسے دستور کے مطابق رائج سیکیولرازم کے بنیادی اصولوں کے منافی کہا گیا ہے ۔
اس نوٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ اپنے اقتدار کا غلط استعمال کرتے ہوئےوزیر اعلیٰ نے :" نہ صرف مذہبی منافرت کے متاثرین کو ہی ان کے خلاف ہونے والے تشدد اکسانے کا سبب قرار دے کران کی ہتک اور مذمت کی ہے ، بلکہ ان کے قانونی حقوق اور تحفظ سے انہیں محروم کیا ہے ۔ اور اس طرح انہیں مکمل طور پر غیر قانونی اور ماورائے قانون طاقتوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے ۔"
مذکورہ وکلاء کی انجمن نے وزیراعلیٰ کو یاد دلایا ہے کہ انہیں دستوری عہدے پر قائم رہتے ہوئے ایسے جرائم کی روک تھام کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں ۔ کیونکہ :" آپ نے جو بیان دیا ہے وہ قانون اور آپ کے اٹھائے گئے حلف کے خلاف ہے ، جس سے اس قسم کے واقعات میں اضافہ کو قانونی جواز مل جائے گا ۔"
نوٹس میں وزیراعلیٰ سے اپنے بیان فوراً واپس لینے، عوام کے سامنے معافی مانگنے اور ریاستی سطح پر چند اصلاحات اور اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ جیسے :
1۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر ہونے والے جرائم پر روک لگے اور مجرموں کو لازماً سزا ملے ۔
2۔ ریاستی حکومت کو چاہیے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق مختلف المذاہب اور مختلف الذات شادیوں کے معاملہ میں تحفظ فراہم کرے اور فرقہ وارانہ تشدد، غیرت کے نام پر قتل اور مورل پولیسنگ کا مقابلہ کرنے کے لئے جو بھی اقدامات کیے گئے ہیں اس کی تشہیر کی جائے۔
3۔ تحسین پونہ والا بالمقابل حکومت ہند کیس میں سپریم کورٹ نے جو ہدایات دی تھیں سختی کے ساتھ اس کا نفاذ یقینی بنایا جائے ۔
4۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ سپریم کورٹ نے شکتی واہینی بالمقابل حکومت ہند والے کیس میں جو ہدایات طے کی ہیں اس پر عمل ہو۔