کرناٹک: کیا نفرت آمیز تقاریر، اشتعال انگیزی ، فرضی ویڈیو اور مسلم دل آزادی جرم نہیں؟ ایک سال میں بی جے پی حکومت نے واپس لئے 330 مقدمات
بنگلورو،29؍مارچ (ایس او نیوز) کرناٹک میں ہندو شدت پسند عناصروں کو ریاستی حکومت کی سرپرستی حاصل ہے یا نہیں اس کو جاننے کے لئے یہی کہنا کافی ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران ریاست میں نقرت آمیز تقاریر، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کی کوشش، اشتعال انگیزی، فرضی خبریں عام کر کے عوام میں نفرت کو ہوا دینے کی کوشش، فرضی ویڈیو بنا کر مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش اور مذہبی جذبات کو مجروح کرنے جیسے سنگین الزامات سے جڑے 330 مقدمات کو حکومت نے واپس لے لئے۔
کنڑا میڈیا دی فائل نے حق اطلاعات کے ذریعے سرکار کی طرف سے موصول رپورٹ پیش کرتے ہوئے خبر دی ہے کہ سن 2013/14 سے فروری 2022 تک عدالتوں میں سماعت کے مختلف مرحلوں میں موجود مقدمات کی تفصیلات حاصل کی ہے، جس سے پتہ چلا ہے کہ سال 2013/14 سے سال 2017/18 تک 600 مقدمے واپس لے لئے گئے ہیں۔ لیکن اس مدت کے دوران ایس ڈی پی آئی یا پاپولر فرنٹ کے خلاف درج ایک مقدمہ بھی واپس نہیں لیا گیا ہے۔ لیکن ریاست میں بی جے پی حکومت کے قیام کے ایک ہی سال کے اندر ہندو شدت پسندوں کے خلاف درج 330 مقدمہ جو سنگین نوعیت کے ہیں ان تمام کو حکومت نے واپس لے لیا ہے۔
حالانکہ کاویری آبی تنازعہ کے سلسلہ میں ہوئی گڑبڑ، کسانوں کے احتجاج اور دیگر مقدمہ بھی واپس لئے گئے ہیں لیکن ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ البتہ کنڑا تنظیموں کے کارکنوں کے خلاف جو مقدمہ مختلف تحریکوں کے دوران درج ہوئے ہیں حکومت نے ان میں سے ایک بھی واپس نہیں لیا ہے۔
2018 کے دوران کانگریس اور جے ڈی ایس مخلوط حکومت کے دور میں دکشن کنڑا ضلع سے وابستہ 98 مقدمات واپس لئے گئے۔ یہ مقدمات دکشن کنڑا میں ہندو سماج اتسو کے اہتمام کے دوران مرغی کی ایک دکان پر حملہ کرنے اور اشتعال انگیز نعرے بازی سے متعلق تھے۔
میسورو، اُتر کنڑا ضلع کے ہوناور،سرسی، چکمگلورو، کورگ، ویراج پیٹ، بالور، آلدور، جیاپورا، کوپل گنگاوتی ، بیلاری، بیلگاوی،ہونالی، نیامتی، بنگلورو اربن سمیت ریاست کے مختلف اضلاع میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف درج مقدمات کی جانچ کے دوران پولیس نے ان پر الزامات کی تصدیق کی ہے اور عدالتوں میں اس کی سماعت ہورہی ہے لیکن حکومت نے ان تمام کو واپس لینے کا حکم جاری کیا ہے۔
جن کے خلاف مقدمات واپس لئے گئے ہیں ان میں ہونالی کے رکن اسمبلی اور وزیر اعلیٰ کے سیاسی سکریٹری ایم پی رینوکا چاریہ اور ان کے حامی، بیلگاوی ضلع کے رکن اسمبلی سنجے پاٹل اور ان کے ساتھ وشوا ہندو پریشد سے وابستہ کارکن، رکن کونسل وائی اے نارائن سوامی اور ان کے 50 سے زائد حامی، اراکین اسمبلی کے جی بوپیا، سی ٹی روی، ریاستی وزیر سنیل کمار، بھٹکل رکن اسمبلی سنیل نائک، کاروار رکن اسمبلی روپالی نائک، نہرواولیکار، ڈی ویدویاس کامت، لکپتا بنڈی، رکن کونسل روی کمار، یو بی بناکر، اروند چندرا کانت بیلا د سمیت بی جے پی کے متعدد قائدین شامل ہیں۔
حکومت نے 2020 کے دوران 11؍فروری کو 47 کیس، 5 مارچ کو 46 کیس ، 5 مئی کو 125 کیس، 18 جون کو 51 کیس، 31اگست کو 61 کیس جملہ 330 کیس واپس لئے ہیں۔
اس موقع پر موجود وزیر اعلیٰ بسواراج بومئی وزیر داخلہ تھے۔ تمام کیس جو واپس لئے گئے وہ سی آر پی سی کی دفعہ 321 کے تحت عدالت میں زیر سماعت تھے۔