اسکول کا ناٹک ۔پولس حیلہ بازی کا ناٹک ۔۔۔۔۔۔بیدر کے شاہین اسکول کے خلاف ہوئی پولس کاروائی پر نٹراج ہولی یار کی خصوصی رپورٹ
بیدر کے شاہین اسکول میں کھیلے گئے ایک ڈرامے میں اداکاری کرنے والے اسکولی بچوں سے بار بار پوچھ تاچھ کرنے والے پولس کا رویہ ، نہایت خطرناک اور خوف میں مبتلا کرنے والا ہے۔ ایک وڈیو کلپ پر انحصار کرتےہوئےمتعلقہ ڈرامے میں شہری ترمیمی قانون کی تنقید کئے جانے اور وزیرا عظم کی توہین کئے جانے کو لےکر ایک تنظیم کی طرف سے دی گئی شکایت پر یہ پوچھ تاچھ ہورہی ہے۔
یہ وڈیوآئی کہاں سے ؟کیسے آئی ؟ کیا یہ اصلی ہے؟ یا پھر جعلی وڈیو ہے؟ ۔ اس طرح کے کئی فیصلہ کن سوالات کی جانچ کئے بغیر پولس بچوں پر اپنا غصہ اتاررہی ہے۔ کوئی بھی غلطی ہوتی ہے تو اس کے لئے قانون ہے ہی۔ مگر اسکول جا کر بچوں میں خوف پیدا کرنے والے پولس رویے کو وزیر داخلہ سنجیدگی سے لیں اور کارروائی کریں۔
ناٹک ہویا نظم ، کسی کا بھی غلط استعمال کرنا صحیح نہیں ہے۔ ایسے غلط استعمالات سیاسی پارٹیاں ہی کرتی آرہی ہیں۔ کالج کے طلبا بھی معمولی تشہیر کے لئے ایسے ناٹک کھیلتے ہیں۔دکشن کنڑا ضلع کی ایک اسکول میں ایک دوسری قوم کی توہین کرنے والا ناٹک کھیلا گیا تھا ۔ اس میں اداکاری کرنےو الے بچوں کے پیچھے اساتذہ ہونے کا الزام بھی سننے میں آیا تھا۔ اس پس منظر میں دیکھیں تو کسی بھی فن کو صحت مندانہ تنقید کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔
اگر ایسے معاملات ہوجاتےہیں تو ڈانٹ ڈپٹ کرکے سمجھانا بزرگوں کا فرض ہوتاہے۔ لیکن غورکریں کہ بیدر جیسی منصوبہ بند جانچ کس زمانے میں ہورہی ہے۔ ایک طرف وزیر اعظم کہتے ہیں ’ کپڑوں کو دیکھ کر لوگوں کو پہچان سکتےہیں ‘؛دوسری طرف ریاستی وزیر رینوکاچاریہ ’ مساجد میں گولی،بندوق اور بم‘ ہونے کی بات کہتےہیں؛ انتخابات میں جیت حاصل کرنےکے لئے ’ دہلی میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنےو الے تمہارے گھروں میں گھسیں گے ‘کہنے والے مرکزی وزراء؛اسی دہلی میں پرُامن احتجاجیوں کومشتعل کرنے اور ووٹوں کوتقسیم کرنے نئے نئے جوان ’دہشت گردوں‘کو ہانکنے والے۔۔۔۔۔غالباً بیدر اسکول کی منصوبہ بندتفتیش کی حیلہ بازی اسی کی سلسلہ وار کڑی ہے۔
اس معاملےمیں جوئینائل جسٹس ایکٹ (2015) کی کھلی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ معاملے کی پوچھ تاچھ کی تصویریں شائع کرنا بدترین کام ہے۔ اب تفتیش کرنے والے پولس افسر کا تبادلہ کیاگیا ہے۔ کسی بھی دھرم اور ذات کا بچہ غلط کرتاہے تو پولس ہوں یا میڈیا ’تفتیشی دہشت گردی ‘ کرنا ظالمانہ ہے۔ میڈیا، سیاست دان، سوشیل میڈیا ، پولس کم سے کم ایک مرتبہ اپنے گھر کے بچوں کو یاد کرتےہوئے دشمنی کے جذبات سے دور رہیں۔
دھرم اور ذات کے نام پر نفرت ، عداوت کو پیدا کرنےکا سبق گھر سے ہی شروع ہورہاہے!والدین ،اپنے بچوں کے سامنے دوسری قوموں کےمتعلق متعصبانہ باتیں نہ کریں۔ بچوں کے ذہن میں نفرت پیدا کرنے والے سرپرست ہوں کہ اساتذہ ، بچوں کی ذہنی قوت کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیتے ہیں۔بچے حد ود پھلانگتے ہیں تو انہیں پکڑ میں لانا اساتذہ کا کام ہے ، پولس کی مداخلت خطرناک ہے، تمام والدین اس کے خلاف آواز اٹھانا چاہئے۔
آج ’دیش دروہی‘کا لفظ پولس، سیاست دان اور روزانہ چیخ پکار کرنے والے بے تحاشہ استعمال کررہے ہیں۔یاد رکھنا چاہئے کہ 2016میں کوڈوم کولم جوہری پلانٹ کے مخالف جہد کاروں پر درج کئے گئے ’ملک غداری ‘ کیس کو سپریم کورٹ نے رد کرتےہوئے فیصلہ سنایاتھا۔ کوئی اگر حکومت کی تنقید کرتاہے تو ملک غداری کاکیس درج نہیں کیا جاسکتا۔ ’آئی پی سی 124 (اے) سڈیشن ‘ کے اصولوں کو لے کر ’کیدارناتھ سنگھ ورسس اسٹیٹ آف بہار‘ معاملےمیں سپریم کورٹ نے جو رہنماخطوط طئے کئے ہیں انہی کو اپنایاجائے۔وکیل پرشانت بھوشن نے اس وقت پوچھا تھا کہ کیا پولس کو متعلقہ ’ آئی پی سی قانون‘ کی باریکیاں سمجھ میں آئیں گی ؟ ۔ تو جج صاحب نے کہاتھا کہ ’پولس کانسٹبل کو سمجھ میں نہیں آتا ہے تو کوئی بات نہیں، مگر جج صاحبان ملک غداری معاملات میں سپریم کورٹ کے رہنما خطوط کو سمجھ کر عمل کرناہوگا۔
6برس پہلے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر یہی بی جے پی والے وزیر اعظم من موہن سنگھ کو توہین کرتے ہوئے تنقید کرتے تھے یا نہیں ؟ ۔ لیکن اس کے باوجود من موہن سنگھ کبھی بدلے کی سیاست نہیں کی۔ آج کے وزیر اعظم کو بھی تنقید کا سامنا کرناپڑیگا، تنقید کو برداشت کرنےکی قوت ان میں ہونی چاہئے۔ سماجی حالات کی تنقید کرنے والے ناٹک، کالج اور تھیٹر میں پیش کئے جانے والے ناٹکوں کے ذریعے عوام کی اصلاح کا کام کئے ہیں۔ انگریزوں کے خلاف بھی ناٹک کھیلے گئے۔ زمیندارانہ ظلم کے خلاف ، انواع قسم تعصبات ، چھوت چھات کے خلاف ناٹک پیش کرتےہوئے بچوں کے ذہنوں کی اصلاح کی گئی ہے۔
ایسی روایات کے حامل کرناٹک کے ایک اسکولی ڈرامے کو لےکر پولس کی ’زبردستی مداخلت ‘ قابل مذمت ہے۔ اس کے پیچھے جو سیاست دان، تنظیمیں ، شاہین اسکول پر سیاہ دھبے کا داغ لگانے میں شامل مقابلے کے تعلیمی ادارے ۔سبھی ایک سچ کو یاد رکھیں۔ ایسے سستے کام مستقبل میں اس میں شریک ہونے والوں کی آزادی کو بھی چھین لیتے ہیں۔پچھلے پانچ چھے برسوں سے بہترین تعلیمی اداروں کو برباد کرنے کا کام شمالی بھارت میں چل رہاہے۔ اب وہی بیماری کرناٹک میں بھی نہ پھیلے ۔ اس کی نگرانی کرنا ریاستی وزیر داخلہ اور وزیر اعلیٰ کی ہے۔
آخر میں بس اتنا کہنا چاہتاہوں کہ حالیہ دنوں میں کپڑے دیکھ کر بچہ چوروں کی نشاندہی کرنےو الی عوامی چال کے چلتے، اب بچوں کو ہی چوروں کی طرح دیکھنے کی بدتر چال کرناٹک کی پولس نہ شروع کرے تو بہتر ہے۔ اس معاملے میں ایک نوسالہ مسلمان بچہ لاچار و بے بس ہوگیا ہے۔ اس بچے کی بیوہ ماں قید میں ہے۔ اس یتیم بچے کی بے چارگی کو دیکھتے ہوئے سبھی شہریوں میں دھرم، ذات کی دیواریں توڑ کر ہمدردی پیدا ہو۔
(بشکریہ کنڑا روزنامہ پرجا وانی)