وزیراعلیٰ سدرامیا کی حمایت میں میسور میں کانگریس کا زبردست جلسہ ؛ سدرامیا نے کہا؛ کوئی مارچ مجھے ہلا بھی نہیں سکتا
میسورو، 10/ اگست (ایس او نیوز ) بی جے پی اور جے ڈی ایس کی طرف سے کرناٹک کے وزیراعلیٰ سدرامیا کے خلاف میسور میں کئے جارہے احتجاجی مظاہروں کے درمیان نے سدرامیا کی حمایت میں کانگریس نے میسور میں ہی زبردست عوامی جلسہ کا انعقاد کرتے ہوئے مضبو ط پیغام دینے میں کامیاب ہوگئی ہے کہ وہ وزیراعلیٰ سدرامیا کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس موقع پر ہزاروں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے سدرامیا نے کہا کہ جب تک عوام کا آشیر واد میرے ساتھ ہے، مجھے کوئی ہلا بھی نہیں سکتا اور میں کسی کے سامنے جھکنے والا نہیں ہوں۔ سدرامیا نے کہا کہ موڈا میں کوئی اسکینڈل نہیں ہوا اور نہ ہی میں نے کوئی غلط کام کیا ہے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ بی جے پی پہلے دیوراج ارس اور بنگارپا کو بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ اب وہ مجھے بھی برداشت نہیں کرسکتے ۔ جے ڈی ایس کے دیوے گوڑا اور کمارا سوامی نے کبھی اپنی بات نہیں رکھی۔ دیوے گوڑا جنہو ں نے کہا تھا کہ اگر مودی دوبارہ وزیر اعظم بنتے ہیں تووہ ملک چھوڑ دیں گے، لیکن ملک چھوڑنا تو دور کی بات وہ خود اب بی جے پی میں شامل ہو گئے ہیں۔
سدارامیا نے کہا کہ میں ریاست کی عوام کے آشیرواد سے دو مرتبہ نائب وزیر اعلیٰ اور دو مرتبہ وزیر اعلیٰ بنا ہوں۔ میرے پاس پاور اور اقتدار ہونے کے بائوجود میں نے کبھی پیسہ کمانا نہیں چا ہا، میری بیوی آج تک عوام میں نہیں دیکھی گئی، دو مرتبہ وزیر اعلیٰ رہنے کے باوجود میری بیوی حلف برداری تقریب میں بھی عوامی طور پر نظر نہیں آئیں۔
وزیر اعلیٰ نے واضح کیا کہ ہم کرپشن کرنے والے لوگ نہیں ہیں، ہم آپ کی امانت میں خیانت کرنے والے لوگ نہیں ہیں ۔ آگے کہا کہ جب تک میں سیاست میں ہوں آپ کی امانت میں کبھی خیانت نہیں کروں گا۔ سدرامیا نے کہا کہ میرے پاس 1983 کے پہلے الیکشن کے لئے پیسے نہیں تھے۔ میرے دفتر کے کلرک آنند نے 250 روپئے جمع کرایا تھا اور میرے الیکشن میں تعاون کیا تھا۔ عوا م نے پیسے دیئے اور الیکشن جیتا۔ میرے 9 الیکشن جیتنے میں بھی لوگوں نے پیسہ خرچ کیا ہے۔ انہوں نے کہا میں نے اپناا قتدار صرف دلتوں، مظلوموں ، اقلیتوں اور پوری عوام کی خوشحالی کے لئے وقف کیا ہے۔
کوئی بھی پدیاترا مجھے ہلا نہیں سکتی: پسماندہ طبقوں میں دیوراج ارس کے علاوہ میں واحد شخص ہوں جس نے بطور وزیر اعلیٰ مدت پوری کی ہے۔ بی جے پی اور جے ڈی ایس یہ برداشت نہیں کر پارہے ہیں ۔ لیکن جب تک آپ کا احسان اور اعتماد اور آشیر واد مجھ پر ہے، کوئی مہم جوئی مجھے ہلا نہیں سکتی ۔ والمیکی کارپوریشن معاملے میں بھی حکومت پر جھوٹا الزام لگانے کی کوشش کی گئی لیکن انہیں سبکی اٹھانی پڑی۔ ریکارڈ سے یہ باتیں واضح ہوگئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریکارڈ میں موجود ہے کہ حکومت اور کارپوریشن گھوٹالے کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے۔ والمیکی کارپوریشن گھوٹالہ سامنے آتے ہیں ہم نے ایس آئی ٹی تشکیل دی ۔ تفتیش کی گئی اور رقم برآمد کرلی گئی ۔ ایس آئی ٹی نے 50 کروڑ روپئے برآمد کئے ہیں ۔ 46 کروڑ کی رقم ایک پرائیویٹ بینک میں ہے اور اسے منجمد کردیا گیا ہے۔ اتنی مؤثر طریقے سے ایس آئی ٹی نے جانچ کی ہے ۔ تاہم ای ڈی نے اپنی پہل پر کیس درج کرلیا ہے اور تحقیقات کررہی ہے۔ حکومت کے خلاف کچھ نہیں ملا ۔ اس طرح انہو ں نے اس بات پر غم و غصہ کا اظہار کیا کہ موڈا کیس جو کہ کوئی اسکینڈل نہیں تھا، اس کو بدنام کرنے کے لئے غیر ضروری طور پر اچھالا گیا ۔ انہوں نے طنز کیا کہ یڈی یورپا نے اس عمر میں جنسی زیادتی کا ارتکاب کیا تھا اور وہ پوسکو کیس میں ماخوذ ہیں ۔ بی جے پی اور جے ڈی ایس کے لیڈروں نے ایک یا دو گھوٹالے نہیں بلکہ بے شمار بدعنوانیاں کی ہیں۔ وہ اپنے گھوٹالوں کے خلاف سپریم کورٹ سے حکم امتناعی لے کر آئے ہیں۔ وہ میرا استعفیٰ مانگ رہے ہیں۔ یڈ ی یورپا چیک کی شکل میں رشوت لینے کےبعد جیل چلے گئے۔ آر اشوک ، وجیندرا کو جیل جانا چاہئے۔ انہو ں نے سوال کیا کہ ان لوگوں کو میرے بارے میں بات کرنے کا اخلاقی حق حاصل ہے؟ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ میسورو میں میرا اپنا گھر نہیں ہے، اگر مجھے پیسے سے پیار ہوتا تو میں کروڑوں کما سکتا تھا۔ میرے پاس میسور ومیں اتنے عرصے سے کوئی گھر نہیں ہے۔ میں اب تعمیر کررہا ہوں۔ میں نے پچھلا گھر قرض لے کر بنایا تھا ۔ میں نے وہ گھر بیچ دیا کیونکہ میں قرض ادا نہیں کرسکتا تھا۔ کرائے کے مکان میں رہ کر اسمبلی اور لوک سبھا کے انتخابات ہوئے ۔وزیر اعلیٰ نے دعویٰ کیا کہ جو گھر بن رہا ہے اس کے علاوہ میرے نام پر صرف ایک جگہ ہے۔ اب وہ راج بھون کا غلط استعمال کر کے میرے خلاف ساز ش کررہے۔ ایچ ڈی کمار سوامی ، یڈی یورپا ، وجیندرا، آر اشک اس سازش میں شامل ہیں۔ کمار سوامی کے خلاف، نیرانی کے خلاف، ششی کلا جولے کے خلاف مقدمہ چلانے کی اجازت مانگنے کے باوجود ، راج بھون سے اب تک کوئی نوٹس نہیں بھیجا گیا ہے۔ لیکن صرف مجھے نوٹس ملا۔ انہوں نے سوال کی کہ کیا یہ جانبداری نہیں ہے؟۔