جماعت اسلامی ہند بیدر کی جانب سے پروگرام ''مکی حالات اور موجودہ حالات۔ تقابل اور لائحہ عمل'' کا انعقاد
بیدر۔26/جنوری۔(محمدامین نواز) تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور میں دو اہم چیزیں نمایاں طور پر پر دیکھنے کو ملتی ہیں، پہلی چیز دعوت اور دوسری چیز صبرواستقلال ہے، جو ایک دوسرے سے مربوط ہے۔ مکی دور میں جس وقت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کا اعلان کیا تھا اس سے قبل اور اس کے بعد بہت ساری معاشرتی برائیاں عروج پر تھیں۔ دورِ جاہلیت میں عورت پر ظلم و ستم اور استحصال، لڑکیوں کا زندہ درگور کرنا اور مشرکانہ رسومات، شراب و جوا اور دیگر کئی ایک برائیوں کا دور دورہ رہا۔ اگر ہم آج کے حالات پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں آج بھی اُسی قسم کی یا پھر اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر برا ئیاں ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار الطاف امجد رکن جماعت اسلامی ہند بسوا کلیان نے بیدر میں منعقدہ ''مکی حالات اور موجودہ حالات۔ تقابل اور لائحہ عمل'' موضوع پر خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔
موصوف مولانا سید ابوالاعلی مودودی ہال، بیدر میں اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج بھی عورت پر ظلم و ستم اور استحصال کیا جاتا ہے، لڑکیوں کو زندہ درگور، جنین کشی، اسقاط حمل وغیرہ برائیاں آج بھی ہمارے معاشرے میں دیکھنے کو ملتی ہیں، جو سراسر ظلم ہے۔ شراب وہ جوئے کا عام ہونا، سود کا چلن، حقوق انسانی کی پامالی، ظلم و ستم کا عروج وغیرہ آج بھی موجود و جاری ہیں۔ ایسے ماحول اور معاشرے میں بحیثیت مسلمان دعوت الی اللہ کے فریضہ کو انجام دینے کی اپنی حد المقدور کوشش جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ اسلام کے داعی کے لیے چیلنجز اُس وقت بھی تھے اور آج بھی ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں لیکن دعوتِ دین کے لیے جتنے وسائل اور ذرائع آج موجود ہیں شاید کسی تاریخ میں کبھی اتنے ذرائع اور وسائل کسی داعی اسلام کو میسر آئے ہوں۔ بشرطیکہ ہم مخلص ہوکر دعوت دین کے لیے ان وسائل کوصحیح استعمال کریں۔٭٭٭