دہشت گردی، بم دھماکے اور لوجہاد میں مسلمان ہی کیوں شامل ہیں؟ بھٹکل کے صحافیوں کا سوال اورجماعت اسلامی ہند کے ریاستی سکریٹری کا جواب

Source: S.O. News Service | By Abu Aisha | Published on 13th January 2023, 10:40 PM | ساحلی خبریں |

بھٹکل:13؍ جنوری(ایس اؤ نیوز ) جماعت اسلامی ہند بھٹکل کے زیر اہتمام بھٹکل میں پہلی مرتبہ12جنوری 2023بروز جمعرات ایک نجی ہوٹل میں اسلام اورمسلمانوں کے متعلق پھیلائی گئیں غلط فہمیوں کے ازالہ کے لئے خوش گوار ماحول میں مقامی صحافیوں کے ساتھ تبادلہ خیال ہوا۔  صحافیوں نے دہشت گردی ، بم دھماکے ، لوجہاد، اسلام ہی اعلیٰ ہونے، حجاب ، قانون کی خلاف ورزی ، قتل و غارت گری پر مذمت کے بجائے حمایت کرنےجیسے بے شمار سنگین الزامات کے متعلق وضاحت چاہی۔ اور مینگلور سے تشریف فرما جماعت اسلامی ہند کرناٹکا کے سکریٹری محمد کوئیں نے حقائق اور عملی شہادتوں کو سامنے رکھتے ہوئے معقول اور مدلل جواب کے ذریعے انہیں مطمئن کرنےکی کوشش کی۔

افتتاحی کلمات پیش کرتےہوئے محمد کوئیں نےکہاکہ آپسی رابطے ، تعلقات ، تبادلہ خیال کئی مسائل سے نجات دلاتاہے۔ مسائل کتنے بھی پیچیدہ اور سنگین کیوں نہ ہوں بیٹھ کر بات کرنے سے ہی انہیں حل کیاجاسکتاہے اور معاشرےکو صحت مند بنانے اور امن کو قائم رکھنےمیں ایسےپروگرام لازمی ہیں۔ محمد کوئیں نے کہا کہ جماعت اسلامی ہند خاص کر کرناٹک اور ملک بھر میں ایسے پرگراموں کا اہتمام کرتی رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اسی کے ذریعے مذاہب کے درمیان نفرت، دشمنی اور آپس میں ہندوں اور مسلمانوں کو تقسیم کیاجارہاہے۔ جب کہ جماعت اسلامی ہند اس بات پر یقین رکھتی ہےکہ ہر مسئلہ کو پرامن ماحول میں اور آپسی بات چیت کے ذریعے حل کرایا جاسکتاہے۔ چونکہ معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں صحافیوں کااہم رول ہوتاہے اس لئے ضروری سمجھا گیا کہ ان کے ساتھ بھی تبادلہ خیال کیاجائے۔ پروگرام میں صحافیوں نے کس طرح کے سوالات کئے اور محمد کوئیں نے کس طرح صحافیوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی، مختصربات چیت پیش کی جارہی ہے۔

ایک صحافی نے جب اسلامک فوبیا پروضاحت چاہتے ہوئے کہاکہ کسی بھی فوبیاکو ثابت نہیں کیاگیا ہے ، البتہ کہیں کچھ ہواہے اس کو دورکرنا ضروری ہے بے اعتمادی سے ہی سب کچھ ہونےکی بات کہی ۔ ایک اور صحافی نے ملک میں ہونےو الی دہشت گردی ، فسادات پرمتعلقہ فرقہ کی مذمت نہیں کئےجانے اور غلط نہیں کہنے پر سوال اٹھایا اور کہا کہ جو غلط ہے اس کا بائیکاٹ کیاجائے اور قانون کے حوالے کیاجائے ۔ اسی طرح ایک اور صحافی نے اپنے ہی مذہب کو اعلیٰ سمجھنے پر مسائل کھڑے ہونے کی آرایس ایس کے چیف موہن بھاگوت کے حوالے سے سوال کیاتو محمدکوئیں نےا سکی وضاحت کرتےہوئےکہاکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ کسی بھی قتل وغارت گری ، ہنگاموں اور فسادات کی حمایت نہ کرے۔ کوئی بھی کرے تو اس کی صرف متعلقہ طبقہ کے لوگ یا تنظیمیں ہی نہیں بلکہ سب کو متحدہ مذمت کرنی چاہئے۔ محمد کوئیں نے کہا کہ جب ایک ہندو سوامی مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرتےہوئے ہندووں کو گھروں میں ہتھیار رکھنےکی بات کہتےہیں تو بھی ہر ایک کو اس کی مذمت کرنی چاہئے۔ اگر کوئی سماج ایسے کرتوت کی حمایت کرتاہے تو وہ سماج باقی نہیں رہےگا۔ قرآن انسانیت کی حفاظت اورتکریم کی ہدایت کرتاہے، جونظریہ انسانیت کے متعلق اسلام دیتاہے وہ کہیں اور نظر نہیں آتا۔ حقیقت یہ ہے کہ قتل وغارت گری ، فسادات اور دہشت گردی مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ سیاست، مالی اور ذاتی بنیاد پر ہوتی ہیں۔

جہاں تک اپنے کو ہی اعلیٰ سمجھنے کا سوال ہے ملک کا دستور ہرایک کو اپنے مذہب پر عمل کرنے ، پھیلانے اور دوسروں تک پہنچانے کی آزادی اور حق دیتاہے۔ ہماراماننا ہے کہ عوام کے درمیان مذہب کا اصل پیغام عام کرنا چاہئے۔ اور اعلیٰ ہونے،اونچ نیچ ہونے کی بات ہے وہ سب جانتےہیں ۔ہرایک اپنے مذہب کو اعلیٰ سمجھتا ہے لیکن کسی کو کم تر نہ کہے ۔ مسلمانوں کے تعلق سے کہنا چاہوں گا کہ وہ اپنے مذہب پر حد درجہ ایمان ویقین رکھتےہیں ۔ اس پر عمل پیرا ہیں انہیں اسلام اعلیٰ ہونے پر ایمان بھی ہے ۔ جب ہرکوئی یہی کہتاہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے۔ اسی طرح اسلامی فوبیا ایک تھوپی گئی اصطلاح ہے، اس کے پیچھے سیاسی اور معاشی وجوہات ہیں ، ہم اسی کو دور کرنےکی کوشش کررہےہیں۔

صحافیوں میں سے ایک نے سوال کیاکہ مذہب میں غلط ہونے کے باوجود اس پر عمل کرتےہیں تو مسئلہ پیدا ہوجاتاہے۔ ہندو پر ظلم ہوتاہے تو آر ایس ایس اور بی جے پی والے اس کی مذمت کرتےہیں انہیں فرقہ پرست کہاجاتاہے  یہی جب مسلم پر ظلم ہونے کے بعد مسلمان بھی احتجاج کرتےہیں تو انہیں فرقہ پرست کیوں نہیں کہاجاتا۔ لوجہاد کو لے کر بھی کئی اشکالات ہیں لوجہا د کے ذریعے افغانستان اور شا م لے جاکر انہیں ہراساں کیاجارہاہے۔

محمد کوئیں نے وضاحت کرتےہوئےکہاکہ معصوموں کےقتل پر مذمت کرنا انسانی فطرت ہے، کسی ایک یا متعلقہ طبقہ ہی مذمت کرے صحیح نہیں ہے۔ پروین نٹیار اور شیموگہ میں ہرشا کا قتل ہواتو جماعت اسلامی ہند سمیت کئی مسلم تنظیموں نے اس کی کڑی مذمت کی ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ قتل و غارت گری اسی وقت ہوتی ہے جب قانون کمزور ہوتاہے۔ اگر پولس محکمہ کو مکمل آزادی اور کھلی چھوٹ دی جائےتو اس مسئلہ کو آسانی سےختم کیاجاسکتاہے۔ مذہب پر ایقان رکھنے والےکاکام ہے کہ وہ کسی بھی معصوم کے قتل کی مذمت کرے۔

دیکھئے اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا کہ فرقہ پرست ہم سے نہیں ۔صحابیوں میں سے ایک نے وضاحت چاہی کہ کیا  اپنے دھرم سے پیار کرنا بھی فرقہ پرستی ہے؟تو نبی ﷺ نے فرمایا اپنے مذہب، طبقہ والوں سےمحبت کرنا فرقہ پرستی  نہیں بلکہ فرقہ پرست وہ ہے جو اپنے مذہب، ذات یا طبقہ کا کوئی ایک فردبھی  بے انصافی، غیر قانونی یا برائی کے کام میں ملوث ہو اور اس کی بے جا حمایت کی جائے۔

محمد کوئیں نے کہاکہ لوجہاد کو لےکر کئی ساری باتیں پھیلائی گئی ہیں۔  ابھی تک ملک کی اعلیٰ سطح کی تفتیشی ایجنسیاں این آئی اے سمیت پولس وغیرہ نےجانچ کی ہیں ، کیرلا اورکرناٹکا میں بھی اعلیٰ سطح کی جانچ ہوئی ہے۔ ان سب نے کہاہےکہ کیرلا سمیت کہیں بھی لوجہاد کا معاملہ پیش نہیں آیا ہے۔ 2019کو پارلیمنٹ میں وزارت داخلہ کی طرف سے کہاگیا ہےکہ ملک میں لوجہاد کےمعاملات نہیں ہیں۔ لوجہاد کے متعلق مصدقہ ادارے این آئی اے، تفتیشی ایجنسی یا پولس تصدیق کرتی ہے تو قبول کیاجائےورنہ سیاسی بیان بازی کی کوئی وقعت نہیں ہوتی ہے۔

’لو(Love)‘ کو لےکر اسلام کا نظریہ پیش کرتےہوئےمحمد کوئیں نے کہاکہ اسلام میں لو ، پیار کےلئے کوئی موقع ہی نہیں ہے۔ ایک مسلمان لڑکا ، مسلمان لڑکی سےپیار کر ہی نہیں سکتا، دیکھ نہیں سکتا، حرام ہے۔ اور صرف اسلام نے زنا خورکو قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہےکہ ہم اپنے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو اخلا ق سکھائیں۔ مذہبی تعلیمات سے آراستہ کریں۔ لوجہاد کے نام پر سماج کو تقسیم کیا جارہاہے ،یہ سب ووٹ حاصل کرنے کی سازش ہے۔  

ایک صحافی نے سوال کیا کہ دیکھئے جناب ! آگ لگی ہےتو ہی دھواں اٹھتاہے۔ ملک میں جہاں بھی بم دھماکے ہوتےہیں ان میں سے90فی صد نام مسلمانوں کے ہی ہوتےہیں۔ دوسرا ایک طرف مسلمان کہتےہیں کہ وہ دستور اور قانون کا احترام کرتےہیں ، وہیں حجاب فیصلے کے خلاف ریاست بھر میں احتجاج کرتےہوئےبند مناتے ہیں۔مسلمان بھگوت گیتا کی نظم پڑھتاہے تو فتویٰ جاری کرتےہیں  لوجہاد کےخلاف کوئی فتویٰ جاری نہیں ہوتا ہے کیوں ؟۔

محمد کوئیں نے وضاحت کرتےہوئےکہاکہ بم دھماکوں میں کئی سارےنام شامل ہیں صرف مسلمان نہیں ہیں۔ وہیں ایک بم دھماکہ کا ملزم پارلیمنٹ میں ایم پی ہے بڑے آرام سے ہے۔ اس کے برخلاف کئی مسلمان 15-20برسوں سے جیلوں میں بند ہیں۔ بم دھماکوں کی کئی وجوہات ہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ملک میں ابھی تک جتنےبھی بم دھماکے ہوئے ہیں اس کے لئے حقیقی طورپر کون ذمہ دارہے ، کون ملزم ہے ، ہماری تفتیشی ایجنسیاں ثابت ہی نہیں کرپائی ہیں۔ مسلمانوں نے ہمیشہ کہا ہےکہ اصل ملزم کو تلاش کرتےہوئے اس کو سخت سزا دی جاتی ہے تو جرم کا خاتمہ ہوگا۔ افسوس کہ 20-25برسوں سے مسلم نوجوان بم دھماکوں کو لےکر جیلوں میں بند ہیں ،ایک لمبی مدت کے بعد انہیں رہا بھی کیاجاتاہے ،کوئی ثابت نہیں کرپارہاہے تو سمجھا جاسکتاہے کہ دہشت گردی کا ملزم کون ہے۔ جرم ، جرم ہے اس کے لئے کسی بھی مذہب کو مورد الزام ٹھہرایانہ جائے۔ کیونکہ عراق کو بربا دکرنے والے امریکہ کے جارج بش اور جنگلی ہاتھیوں کے دانت اسمگلنگ کرنےو الے ویرپن کا بھی ایک دھرم ہے  مگر کسی نے بھی انہیں ان کےدھرم کو لے کر بات نہیں کہی۔ جماعت اسلامی ہند کا ماننا ہے کہ بم دھماکوں کے متعلق شفافیت اور مکمل تحقیق اورچھان بین ہوتی ہے تو اس کے  پیچھے کون ہے اس کا پتہ چلے گا۔

فتویٰ کے تعلق سے محمد کوئیں نے کہا کہ کوئی اپنی رائے پیش کرتا ہے تو میڈیا اُسے فتویٰ قرار دیتا ہے، جو صحیح نہیں ہے۔ محمد کوئیں نے کہا کہ چند مولانا قسم کے لوگ اپنی لاعلمی  کی بنیاد پرکسی سوال یا کسی معاملے میں اپنی رائے پیش کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ پورے مسلمانوں کی رائے ہے یا فتویٰ ہے ۔ البتہ مخصوص اسلامی جماعتیں یا تنظیمیں کسی موقف کو اپناتے ہوئےر ائے ظاہر کرتی ہیں تو اس کو فتویٰ کہہ سکتےہیں۔

جہاں تک حجاب کامعاملہ ہے اس سلسلے میں عدالت کے فیصلےکےخلاف بند منانے کی بات ہے یہ سب جانتےہیں کہ حجاب کے پیچھے سیاست کام کررہی تھی ۔ حجاب کو آسانی سےحل کیاجاسکتاتھا اس سلسلےمیں مسلمانوں سے غلطی ہوئی ہے۔ یہاں شدت پسندی نے حجاب معاملہ کو بگاڑاہے ہم اس کو مانتےہیں۔ حقیقت یہ ہےکہ صدیوں سے ہندو، مسلم لڑکیاں اور عورتیں سرپر پلو ڈالتی رہی ہیں یہ ہماری سنسکرتی بھی رہی ہے۔ ہائی کورٹ حتمی نہیں بلکہ یہ قانون کا احترام ہی تھا کہ ہم سپریم کورٹ گئے۔ اپنے دکھ کے اظہار کے لئے بند منایا ہے۔ اس کے برعکس شبری مالاکیس میں کتنا ہنگامہ ہوا سب جانتےہیں۔ طلاق ثلاثہ کا فیصلہ ،بابری مسجد کا فیصلہ وغیرہ میں انصاف نہیں ہونے کےباوجود ، دل نہ مانتےہوئے بھی ہم نے فیصلوں کو قبول کیا، کوئی ہنگامہ یا فساد نہیں مچایا ۔

محمد کوئیں نےمسلمانوں کے تعلق سے بھی خیال ظاہر کرتےہوئےکہاکہ ملک میں مسلمانوں نے اسلام کی صحیح و سچی تصویر ایمانداری کے ساتھ پیش نہیں کی، جس کی وجہ سے کئی مسائل جنم لئے، مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اسلام کی بہتر نمائندگی کریں اور عوام تک سچی باتیں پہنچائیں۔

 تبادلہ خیال میں 20سے زائد مقامی صحافی شریک ہوئے۔ کھلے دل سےانہوں نے نڈر ہوکر سوالات کئے ۔ بہت ہی سنجیدہ ماحول  میں گفتگو ہوئی۔ ظہرانہ کا انتظام تھا۔ صحافیوں نے اس طرح کے پروگرام کے انعقاد کی ستائش کرتے ہوئے غلط فمہمیوں کو دور کرنے کی بہترین کوشش قرا دیا۔ رکن جماعت محمد رضامانوی نے پروگرام کی نظامت کی ڈائس پر امیرمقامی مولانا سید زبیر مارکیٹ اور ناظم ضلع محمد طلحہ سدی باپا موجود تھے۔

ایک نظر اس پر بھی

منگلورو سائی مندر کے پاس بی جے پی کی تشہیر - بھکتوں نے جتایا اعتراض

منگلورو کے اوروا میں چیلمبی سائی مندر کے پاس رام نومی کے موقع پر جب بی جے پی والوں نے پارلیمانی انتخاب کی تشہیر شروع کی تو وہاں پر موجود سیکڑوں بھکتوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی جس کے بعد بی جے پی اور کانگریسی کارکنان کے علاوہ عام بھکتوں کے درمیان زبانی جھڑپ ہوئی

اُڈپی - کنداپور نیشنل ہائی وے پر حادثہ - بائک سوار ہلاک

اڈپی - کنداپور نیشنل ہائی وے پر پیش آئی  بائک اور ٹرک کی ٹکر میں  بائک سوار کی موت واقع ہوگئی ۔     مہلوک شخص کی شناخت ہیرور کے رہائشی  کرشنا گانیگا  کی حیثیت سے کی گئی ہے جو کہ اُڈپی میونسپالٹی میں الیکٹریشین کے طور پر ملازم تھا ۔