عصر حاضر کے ہر کس و ناکس خواہ وہ پانچ دس سال کا معصوم بچہ کیوں نہ ہو یہ بات انکو بخوبی معلوم ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عورتوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے اور عورت ذات کو ایک حقیر سی شئی تصور کی جاتی تھی تاریخ کے اوراق ،زمین کی پستی و آسمان کی بلندی پر کی ہر شئی عینی شاہد ہیکہ قبل اسلام یہودیوں کے یہاں کافی عرصہ تک اس بارے میں اختلاف رہا ہے کہ عورت انسان ہے یا نہیں ؟ بہت سے یہودیوں کا یہی خیال تھا کہ وہ انسان نہیں ؛بلکہ مردوں کی خدمت کے لئے انسان نما حیوان ہے لہذا اسے ہنسنے ،بولنے کا کوئی حق نہیں، بعض یہودیوں کا یہ خیال تھا کہ عورت شیطان کی سواری اور بچھو ہے جو ہر انسان کو ہروقت ڈنک مارنے کی فکر میں رہتی ہے
عیسائیوں کا ابتدائی نطریہ یہ تھا کہ عورت ہونا گناہ کی اماں اور بدی کی جڑ ہے ، 582 ھ میں کلیسا کی ایک مجلس میں یہ فتوی صادر کیا گیا کہ عورتیں روح نہیں رکھتیں۔ ہندؤوں کے یہاں سب مکرم اور قابل فخر عورت وہی سمجھی جاتی تھی جو شوہر کہ چتا پر جل کر مر جائے لیکن اسلام نے آتے ہی ان ساری برائیوں کا خاتمہ کر دیا عورت کو عزت کے مقام پر فائز کیا اور بیٹی باپ کے لئے رحمت بھائی کے لئے نعمت شوہر کے لئے سکون اولاد کیلئے جنت قرار دیا۔
ذات باری نے عورتوں کے حقوق کے متعلق باضابطہ طور پر "سورہ نساء" نازل فرما دیا اس میں عورتوں کے میراث کے متعلق کھل کر بتا دیا اسی طرح عورت کو ایک عزت کا مقام دیا لیکن فرعون وقت بدنام زمانہ ظالم ہند نریندر مودی نے اپنی سیاسی روٹی سیکنے کے لئے بھولی بھالی "مسلم عورتوں "کا سہارا لیکر "تین طلاق کا بہانہ بنا کراسلامی قوانین میں دخل اندازی کی کوشش کی ہے جو مسلمانوں کے دین میں دست درازی ہے ۔
جس ظالم نے گجرات کی مسلم عورتوں کی عزت نیلام کروائی اور مسلم عورتوں کو زندہ جلا دیا ننھے ننھے معصوم لڑکیوں کو مادر رحم سے نکال کر خون کی ہولیاں کھیلی آج وہ ظالم یہ کہہ رہا ہے کہ "مسلم بہنوں کے ساتھ ظلم نہیں ہونے دیا جائے گا " آج اس ظالم کو انصاف اور حقوق نظر آ رہے ہیں تو "ذکیہ جعفری "جیسی کئی مظلومہ انصاف کا انتظار کر رہی ہے اسے انصاف دے ،مظفر نگر کے مظلومین کو انصاف دے۔ لیکن ایسا نہیں ہوگا کیونکہ "ظالم ہند "خود جیل کی سلاخوں میں چلا جائے گا۔ اگر انصاف دینا ہے تو گجرات کی "جسودا بین "کو انصاف دو اسکی جوانی جو کسی کے انتظار میں گزری ہے وہ لوٹا دو اور اسکو سہاگن کا حق لوٹا دو ۔
لیکن غور کیا جائے تو اس میں کچھ خامیاں ہماری بھی ہے کہ ہم نے اپنی اولاد کو عصری تعلیم مغربی تہذیب میں دینا گوارہ کیا اور اسلامی تہذیب کو حقیر سمجھا بروز ہفتہ ۲۳ اکتوبر کو ایک عصری تعلیم یافتہ مجھ سے کہہ رہا ہیکہ میں مودی کی اس مہم میں ساتھ ہوں عورتوں کو حق ملنی چاہئے۔ جب اس ناچیز نے اسے سمجھایا تو وہ پھر دستخطی مہم میں ساتھ دیا۔ ایسے ہزاروں افراد ہوں گے لیکن انہیں سمجھائے گا کون ؟
برباد گلستاں کرنے کو ایک ہی الو کافی تھا
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا
از :محمد ولی اللہ ابن محمد زبیر قاسمی تیسی مدہوبنی
شریک دورۂ حدیث دارالعلوم وقف دیوبند
انچارج مجوزہ روزنامہ فاران دہلی