لندن،21/جون (آئی این ایس انڈیا) ایران کے ایک اعلیٰ عہدہ دار نے رومانیا میں سابق جج غلام رضا منصوری کی اچانک اور پْراسرار موت کو ’’قتل‘‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ بخارسٹ کو اس کی مکمل ذمے داری قبول کرنی چاہیے۔
غلام رضا منصوری پر تہران میں بدعنوانیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام میں مقدمہ چلایا جارہا تھا۔ وہ رومانوی دارالحکومت بخارسٹ میں جمعہ کو ایک ہوٹل کے باہر مردہ پائے گئے ہیں۔انھیں مبیّنہ طور اونچائی سے گرایا گیا ہے جس سے ان کی موت واقع ہوگئی ہے یا انھوں نے کھڑکی سے کْود کر خود کشی کی ہے لیکن ابھی ان کی موت کی وجوہ واضح نہیں ہیں۔
ایران کی سپاہِ پاسداران انقلاب کے سابق سربراہ اور اب مصالحتی کونسل کے سیکریٹری محسن رضائی نے ہفتے کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ رومانیا کی حکومت کو منصوری کے قتل کی ذمے داری قبول کرنی چاہیے اور ایران کو اس کے ذمے داروں کے بارے میں مطلع کرنا چاہیے۔بخارسٹ میں پولیس اس واقعے کی ایک حادثے ، خودکشی یا قتل تینوں پہلوؤں سے تحقیقات کررہی ہے۔
ایران کے انٹرپول کے سربراہ ہادی شیرزاد نے جمعہ کو یہ دعویٰ کیا تھا کہ غلام رضا منصوری نے ہوٹل کی کھڑکی سے کود کر خود کشی کی ہے اور رومانوی حکام نے اس بابت ایران کو مطلع کردیا ہے۔
ایرانی عدلیہ کی انسانی حقوق کونسل کے ایک عہدہ دار نے گذشتہ روز سرکاری ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ غلام رضا منصوری نے شاید خودکشی ہی کی ہے۔لیکن جج منصوری کے وکیل امیر حسین نجف پورسانی نے ان کے نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے سابق مؤکل ایسے شخص نہیں تھے کہ وہ اپنی جان ہی لے لیتے۔ انھوں نے رومانیہ کی پولیس اور حکومت کو ان کی موت کا ذمے دار قرار دیا ہے۔نجف پورسانی کے مطابق غلام رضا منصوری بخارسٹ میں 10 جون کو ایرانی سفارت خانہ گئے تھے اور رات وہیں گزاری تھی۔وہ بدھ کی سہ پہر سے جمعرات کی شام تک وہاں موجود تھے اور پھر طبیعت بگڑنے پر انھیں اسپتال لے جایا گیا تھا۔پھر جونھی وہ اسپتال پہنچے تو انھیں رومانوی پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔