ایرانی فورسز کا مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے تشدد، 29 ہلاک
تہران،18/ نومبر (آئی این ایس انڈیا)ایران کے مختلف شہروں میں سکیورٹی فورسز نے پیٹرول کی قیمت میں اضافے کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے براہِ راست گولیاں چلائی ہیں، پانی توپوں اور اشک آور گیس کا استعمال کیا ہے جس کے نتیجے میں جمعہ کے بعد مظاہرین کی ہلاکتوں کی تعداد انتیس ہوگئی ہے۔ایرانی سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان مختلف شہروں میں اتوار کو جھڑپوں کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ہیں۔ ایران کی سرکاری خبررساں ایجنسی ایرنا کے مطابق ملک کے مغربی شہر کرمان شاہ میں ”بلوائیوں اور ٹھگوں“ کے ساتھ جھڑپ میں ایک پولیس افسر ہلاک ہوگیا ہے۔صوبائی پولیس سربراہ علی اکبر جاویدان نے ایرنا کو بتایا ہے کہ ”شہر میں بدامنی کے دوران میں میجر ایراج جواہری مسلح حملہ آوروں کے ساتھ جھڑپ کے دوران میں مارے گئے ہیں۔ایران کی نیم سرکاری خبررساں ایجنسی ایسنا کے مطابق پولیس نے یزد شہر میں مظاہروں کے دوران میں چالیس افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔تاریخی شہر بام میں حکام نے پندرہ مظاہرین کوگرفتار کیا ہے۔ایرانی کردوں کی انسانی حقوق کی ایک تنظیم کے مطابق سکیورٹی فورسز نے کردستان میں متعدد شہروں میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے براہِ راست گولیاں چلائی ہیں جس کے نتیجے میں ہفتے کے روز گیارہ افراد ہلاک اور اناسی زخمی ہوگئے تھے۔تیل کی دولت سے مالا مال جنوب مغربی صوبہ خوزستان میں پانچ شہری مارے گئے ہیں۔خرم شہر میں احتجاجی مظاہرے میں شریک دو افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔شیراز شہر میں بھی سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کے خلاف گولیاں چلائی ہیں جس کے نتیجے میں دو افراد مارے گئے ہیں۔ دارالحکومت تہران میں مظاہرین نے پیرا ملٹری فورس باسیج کے ایک دفتر کو نذر آتش کردیا۔ایران میں پْرتشدد مظاہروں میں اتنی زیادہ تعداد میں ہلاکتوں کے باوجود وزیر داخلہ عبدالرضا رحمانی فاضلی نے گذشتہ روز یہ دعویٰ کیا تھا کہ سکیورٹی فورسز نے ضبط وتحمل اور مظاہرین کے ساتھ رواداری کا مظاہرہ کیا ہے۔انھوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر مظاہرین نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو پھر سکیورٹی فورسز کارروائی کریں گی۔ایرانی حکومت نے جمعہ کو پیٹرول کی قیمت میں پچاس فی صد تک اضافہ کردیا تھا اور اس کی راشن بندی کردی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ اس اقدام کا مقصد نقدی سے محروم شہریوں کی مدد کرنا ہے۔ایرانی حکام کے مطابق اس اقدام سے ملک کو سالانہ تین سو کھرب ریال (دو ارب پچپن کروڑ ڈالر) کی بچت ہوگی۔حکومت کے اس فیصلے کے ایک روز بعد ایران بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے تھے اور ہفتے کے روز ملک کے تریپن شہروں میں ہزاروں افراد نے احتجاجی مظاہرے کیے تھے۔انھوں نے اپنی کاریں اور گاڑیاں کھڑی کرکے مرکزی شاہراہیں بند کردیں، ٹائر جلائے اور”مرگ بر آمر“ کے نعرے لگائے تھے۔گذشتہ روز احتجاجی مظاہروں میں بارہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے تیل کی قیمت میں اضافے کے فیصلے کی حمایت کی ہے۔انھوں نے سرکاری املاک کو نذر آتش کرنے والے مظاہرین کوفسادی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں ایران کے دشمنوں کی حمایت حاصل ہے۔ایران کے پراسیکیوٹر جنرل محمد جعفر منتظری نے مظاہرین پر الزام عاید کیا ہے کہ ان کی جڑیں بیرون ملک پیوست ہیں۔انھوں نے خبردار کیا ہے کہ ان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔