کورونا کےعلاج کے طور پر بڑی تعداد میں ایرانیوں نے زہریلی شراب پی لی، 700 سے زائد ہلاک
تہران،2؍مئی (ایس او نیوز؍ایجنسی) ایران میں ایک ایسی افواہ پھیلی جس نے سینکڑوں ایرانیوں کی جان لے لی ۔ واضح رہے ایران میں سوشل میڈیا پر یہ افواہ پھیل گئی کہ میتھانول سے کرونا کا مرض جاتا رہتا ہے اس کے بعد بڑی تعداد میں ایرانی شہریوں نے زہریلی شراب میتھانول پینی شروع کر دی۔ اس سے کرونا ختم ہوا یا نہیں، یہ تو کسی کو معلوم نہیں، لیکن میتھانول کے زہر نے 700 سے زیادہ ایرانوں کو مار ڈالا۔
ایران کی وزارت صحت نے ان ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ 20 فروری سے 7 اپریل کے دوران میتھانول پینے سے ہلاک ہونے والے افراد کی کل تعداد 728 ہے۔ایران میں زہریلی شراب سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔
وزارت صحت کے ایک مشیر حسین حسنین نے میڈیا کو بتایا کہ اس سے پہلے جاری کی جانے والی ہلاکتوں کی تعداد اس لیے کم تھی کہ کئی لوگ اسپتال سے باہر ہلاک ہوئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ اسپتال سے باہر مرنے والوں کی تعداد 200 کے لگ بھگ ہے۔
ایران میں اس سے قبل بھی میتھانول سے ہلاکتوں کے واقعات موجود ہیں۔ کئی لوگ اسے سستی شراب سمجھ کر پیتے ہیں۔ مگر اس کی زیادہ مقدار انسان کو ہلاک کر سکتی ہے۔ پچھلے سال میتھانول پینے سے 66 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جو مرنے سے بچ گئے ان میں سے 90 مریض یا تو اندھے ہو گئے یا ان کی بینائی کو شدید نقصان پہنچا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
میتھانول کا کوئی ذائقہ یا بو نہیں ہوتی۔ اسے پینے سے اعضائے رئیسہ اور بالخصوص دماغ کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس کی علامتوں میں سینے میں درد، نیم بے ہوشی، سانس کا اکھڑنا، اندھا پن اور مکمل بے ہوشی طاری ہونا ہے۔
میتھانول کی کوئی رنگت نہیں ہوتی۔ تاہم، ایران کی حکومت نے یہ پابندی عائد کر رکھی ہے کہ ایتھانول میں مصنوعی رنگ شامل کیا جائے، تاکہ لوگوں کو پتا چل سکے یہ زہریلا کیمیکل ہے۔ تاہم، منشیات فروش ایتھانول کے رنگ کو بلیچ سے اڑا کر بیچ ڈالتے ہیں۔ میتھانول کو شراب بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
ایران میں شراب پینے کی قانوناً ممانعت ہے، لیکن غیر مسلم، مثلاً عیسائی، یہودی، آتش پرست وغیرہ اسے پی سکتے ہیں۔ ایران میں شراب کشید کرنے کی 40 فیکٹریاں کام کر رہی ہیں۔ایران میں کرونا متاثرین کی تعداد ایک لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے جب کہ 6 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔