کیا شمالی کینرا میں کانگریس پارٹی کی اندرونی گروہ بندی ختم ہوگئی ؟

Source: S.O. News Service | Published on 18th April 2021, 12:46 PM | ساحلی خبریں | اسپیشل رپورٹس |

کاروار ،18؍ اپریل (ایس او نیوز) ضلع شمالی کینرا کو ایک زمانہ میں پوری ریاست کے اندر کانگریس کا سب سے بڑا گڑھ مانا جاتا تھا، لیکن آج ضلع میں کانگریس پارٹی کا وجود ہی ختم ہوتا نظر آرہا ہے، کیونکہ ضلع کی چھ اسمبلی سیٹوں میں سے صرف ہلیال ڈانڈیلی حلقہ چھوڑیں تو بقیہ پانچوں سیٹوں کے علاوہ پارلیمان کی ایک سیٹ پر بی جے پی اپنا قبضہ جما چکی ہے۔

 سیاسی تجزیہ نگار کانگریس کی اس درگت کے لئے  آر وی دیشپانڈے اور ماگریٹ آلوا جیسے قد آور کانگریسی لیڈروں کی گروہ بندی کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ایک وقت وہ تھا جب یہاں کی چھ اسمبلی سیٹوں اور ایک پارلیمانی سیٹ پر کانگریس کا جھنڈا ہی لہرایا کرتا تھا۔ پھر دیشپانڈے اور آلوا کی محاذ آرائی شروع  ہوگئی اور پوری کانگریس لابی دو خیموں میں بٹ گئی۔ ہر گروہ اپنے پسند کے مقامی لیڈر کو آگے بڑھانےکی دوڑ میں لگ گیا۔ دونوں سیاسی لیڈروں کی سیاسی رقابت اور رنجش اس حد تک بڑھ گئی کہ ضلع کی چھ سیٹوں میں سے ہر گروہ نے تین تین سیٹیں اپنے اپنے حامیوں کے تعاون سے تقسیم کرلیں۔ سیٹیں حاصل کرنے کی مہم پر گروہی رنگ چھا جانے کے بعد لازمی طور پر اس کا اثر انتخابی میدان میں نظر آنا ہی تھا۔ اندرونی کشمکش سے کانگریسی ووٹ گروہی مفادات میں تقسیم ہوگئے  جس کانتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف تعلقہ وار سطح پر کانگریس کمزور پڑتی چلی گئی، تو دوسری طرف بی جے پی آسانی کے ساتھ کانگریسی  قلعے میں گھس کر اپنا جھنڈا لہرانے میں کامیاب ہوگئی۔ 

 اگر ضلع میں بدلتے سیاسی رجحان اور گروہ بندی کا جائزہ لیا جائے تو 2013 کے اسمبلی الیکشن کے بعد دیشپانڈے اور آلوا کے درمیان چل رہی سانپ اور نیولے جیسی دشمنی دھیرے دھیرے کم ہونے لگی۔ اصل میں مارگریٹ آلوا نے ضلع کی سیاست میں دلچسپی لینا کم کردیا۔ پھر وہ گورنر کے عہدے پر فائز ہوگئیں اور بڑی حد تک کانگریس پارٹی کی مرکزی سیاست میں محدود ہوکر رہ گئیں۔ ادھر دیشپانڈے کے سامنے کوئی دوسرا بڑا حریف نہ ہونے کی وجہ سے بچی کچھی ضلع کانگریس پارٹی میں دیشپانڈے کا ہی سکہ چلنے لگا اور گروہی رنگ اور سیاست تقریباً ختم ہوگئی۔ 

    کچھ سیاسی جانکاروں کا خیال ہے کہ دیشپانڈے اور آلوا نے اپنے بچوں کے سیاسی مستقبل کو سامنے رکھ کر ایک دوسرے کے ساتھ  صلح کا راستہ اپنایا ہے۔ اس لئے دونوں طرف سے رنجشیں کم ہوگئی ہیں اور دونوں ضلع شمالی کینرا میں اپنے اپنے  بیٹوں کو اپنی سیاسی وراثت سونپنے کے سلسلے میں سنجیدہ ہوگئے ہیں۔ اس کا اثر ان کے بیٹوں کے رویہ میں بھی دکھائی دے رہا ہے اور وہ دونوں بھی ابھی تک کسی قسم کی گروہی شناخت کے ساتھ آگے بڑھتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو آئندہ اسمبلی  انتخاب میں کانگریس کو پھر سے اپنا سیاسی دبدبہ قائم کرنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔ لیکن اس نئی مفاہمت کا امتحان اسمبلی الیکشن سے پہلے تعلقہ اور ضلع پنچایت انتخابات میں ضرور ہوگا اور اس کے نتائج سے  ہی  کانگریس کے مستقبل کے اشارے مل جائیں گے۔

ایک نظر اس پر بھی

منڈگوڈ میں ڈاکٹر انجلی نمبالکر  نے کہا : وزیر اعظم صرف من کی بات کرتے ہیں اور جن کی بات بھول جاتے ہیں  

لوک سبھا کے لئے کانگریسی امیدوار ڈاکٹر انجلی نمبالکر نے منڈگوڈ کے ملگی نامی علاقے میں انتخابی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دس برسوں میں وزیر اعظم نریندرا مودی نے صرف من کی بات کی ہے اور انہیں کبھی جن کی بات یاد نہیں آئی ۔

اُتر کنڑا میں چڑھ رہا ہے سیاسی پارہ - پرچار کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی اور کرناٹک کے وزیراعلیٰ سدا رامیا کریں گے ضلع کا دورہ

لوک سبھا انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لئے اُتر کنڑا میں سیاسی پارہ پوری قوت سے اوپر کی طرف بڑھ رہا ہے کیونکہ اپنے اپنے امیدواروں کے پرچار کے لئے وزیر اعظم نریندرا مودی اور وزیر اعلیٰ سدا رامیا کے دورے طے ہوئے ہیں ۔

اُتر کنڑا میں آج سے 30 اپریل تک چلے گی عمر رسیدہ، معذور افراد کے لئے گھر سے ووٹ دینے کی سہولت

ضلع ڈپٹی کمشنر گنگو بائی مانکر کی طرف سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق الیکشن کمیشن کی طرف سے معذورین اور 85 سال سے زائد عمر والوں کے لئے گھر سے ووٹ دینے کی جو سہولت فراہم کی گئی ہے، اتر کنڑا میں آج سے اس کی آغاز ہو گیا ہے اور 30 اپریل تک یہ کارروائی چلے گی ۔

انجمن گرلز کے ساتھ انجمن بوائز کی سکینڈ پی یو میں شاندار کامیابی پر جدہ جماعت نے کی ستائش؛ دونوں پرنسپالوں کوفی کس پچاس ہزار روپئے انعام

انجمن گرلز پی یو کالج کے ساتھ ساتھ انجمن بوائز پی یو کالج کے سکینڈ پی یو سی میں قریب97  فیصد نتائج آنے پربھٹکل کمیونٹی جدہ نے دونوں کالجوں کے پرنسپال اور اساتذہ کی نہ صرف ستائش اور تہنیت کرتے ہوئے سپاس نامہ پیش کیا، بلکہ ہمت افزئی کے طور پر دونوں کالجوں کے پرنسپالوں کو فی کس ...

یہ الیکشن ہے یا مذاق ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آز: ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ایک طرف بی جے پی، این ڈی اے۔۔ جی نہیں وزیر اعظم نریندرمودی "اب کی بار چار سو پار"  کا نعرہ لگا رہے ہیں ۔ وہیں دوسری طرف حزب اختلاف کے مضبوط امیدواروں کا پرچہ نامزدگی رد کرنے کی  خبریں آرہی ہیں ۔ کھجوراؤ میں انڈیا اتحاد کے امیدوار کا پرچہ نامزدگی خارج کیا گیا ۔ اس نے برسراقتدار ...

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...