کاروار ،18؍ اپریل (ایس او نیوز) ضلع شمالی کینرا کو ایک زمانہ میں پوری ریاست کے اندر کانگریس کا سب سے بڑا گڑھ مانا جاتا تھا، لیکن آج ضلع میں کانگریس پارٹی کا وجود ہی ختم ہوتا نظر آرہا ہے، کیونکہ ضلع کی چھ اسمبلی سیٹوں میں سے صرف ہلیال ڈانڈیلی حلقہ چھوڑیں تو بقیہ پانچوں سیٹوں کے علاوہ پارلیمان کی ایک سیٹ پر بی جے پی اپنا قبضہ جما چکی ہے۔
سیاسی تجزیہ نگار کانگریس کی اس درگت کے لئے آر وی دیشپانڈے اور ماگریٹ آلوا جیسے قد آور کانگریسی لیڈروں کی گروہ بندی کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ایک وقت وہ تھا جب یہاں کی چھ اسمبلی سیٹوں اور ایک پارلیمانی سیٹ پر کانگریس کا جھنڈا ہی لہرایا کرتا تھا۔ پھر دیشپانڈے اور آلوا کی محاذ آرائی شروع ہوگئی اور پوری کانگریس لابی دو خیموں میں بٹ گئی۔ ہر گروہ اپنے پسند کے مقامی لیڈر کو آگے بڑھانےکی دوڑ میں لگ گیا۔ دونوں سیاسی لیڈروں کی سیاسی رقابت اور رنجش اس حد تک بڑھ گئی کہ ضلع کی چھ سیٹوں میں سے ہر گروہ نے تین تین سیٹیں اپنے اپنے حامیوں کے تعاون سے تقسیم کرلیں۔ سیٹیں حاصل کرنے کی مہم پر گروہی رنگ چھا جانے کے بعد لازمی طور پر اس کا اثر انتخابی میدان میں نظر آنا ہی تھا۔ اندرونی کشمکش سے کانگریسی ووٹ گروہی مفادات میں تقسیم ہوگئے جس کانتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف تعلقہ وار سطح پر کانگریس کمزور پڑتی چلی گئی، تو دوسری طرف بی جے پی آسانی کے ساتھ کانگریسی قلعے میں گھس کر اپنا جھنڈا لہرانے میں کامیاب ہوگئی۔
اگر ضلع میں بدلتے سیاسی رجحان اور گروہ بندی کا جائزہ لیا جائے تو 2013 کے اسمبلی الیکشن کے بعد دیشپانڈے اور آلوا کے درمیان چل رہی سانپ اور نیولے جیسی دشمنی دھیرے دھیرے کم ہونے لگی۔ اصل میں مارگریٹ آلوا نے ضلع کی سیاست میں دلچسپی لینا کم کردیا۔ پھر وہ گورنر کے عہدے پر فائز ہوگئیں اور بڑی حد تک کانگریس پارٹی کی مرکزی سیاست میں محدود ہوکر رہ گئیں۔ ادھر دیشپانڈے کے سامنے کوئی دوسرا بڑا حریف نہ ہونے کی وجہ سے بچی کچھی ضلع کانگریس پارٹی میں دیشپانڈے کا ہی سکہ چلنے لگا اور گروہی رنگ اور سیاست تقریباً ختم ہوگئی۔
کچھ سیاسی جانکاروں کا خیال ہے کہ دیشپانڈے اور آلوا نے اپنے بچوں کے سیاسی مستقبل کو سامنے رکھ کر ایک دوسرے کے ساتھ صلح کا راستہ اپنایا ہے۔ اس لئے دونوں طرف سے رنجشیں کم ہوگئی ہیں اور دونوں ضلع شمالی کینرا میں اپنے اپنے بیٹوں کو اپنی سیاسی وراثت سونپنے کے سلسلے میں سنجیدہ ہوگئے ہیں۔ اس کا اثر ان کے بیٹوں کے رویہ میں بھی دکھائی دے رہا ہے اور وہ دونوں بھی ابھی تک کسی قسم کی گروہی شناخت کے ساتھ آگے بڑھتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو آئندہ اسمبلی انتخاب میں کانگریس کو پھر سے اپنا سیاسی دبدبہ قائم کرنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔ لیکن اس نئی مفاہمت کا امتحان اسمبلی الیکشن سے پہلے تعلقہ اور ضلع پنچایت انتخابات میں ضرور ہوگا اور اس کے نتائج سے ہی کانگریس کے مستقبل کے اشارے مل جائیں گے۔