خلیج میں مقیم ’اسلامو فوبیا‘ میں مبتلا ہندوستانی اپنی نوکریوں سے ہورہے ہیں محروم۔ نگرانی کرنے والی رضاکارانہ ٹیمیں ہوگئی ہیں سرگرم
منگلورو،30؍اپریل (ایس او نیوز) خلیجی ممالک میں بیٹھ کر کچھ شر پسندوں تو پچھلے کئی برسوں سے مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں سوشیل میڈیا پر اہانت آمیز پیغامات پوسٹ کررہے تھے اور ایک منظم اینٹی پروپگنڈہ چلارہے تھے، لیکن ان کے خلاف ٹھوس اقدامات کرنے کاسلسلہ اب جاکر تیز ہوگیا ہے۔
پچھلے دنوں ہندوستان میں کورونا وباء اور تبلیغی جماعت کو مسئلہ بناکر مسلمانوں پر الزام تراشی اور نفرت انگیزی کی مہم اندرون ملک کے ساتھ بیرون ملک خلیج میں بھی تیز تر ہوگئی تھی۔ لیکن متحدہ امارات کی ایک شاہی خاتون پرنس الہند اور کچھ دیگر خلیجی ممالک کے شہریوں نے ان شرپسندوں کے خلاف مورچہ کھول دیا، جس کے بعد ہندوستان کے وزیر اعظم تک کو بیان دینے پر مجبور ہونا پڑا کہ کورونا کی وباء کو کسی مذہب اور طبقے سے جوڑ نے کی کوشش نہ کی جائے۔
خلیجی ممالک جیسے قطر، کویت سعودی عربیہ اور امارات وغیرہ میں منصوبہ بندی کے ساتھ کچھ لوگ حرکت میں آگئے ہیں اور خلیج رہتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والوں پر لگام کسنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کسی بھی اشتعال انگیز یا نفرت آمیزسوشیل میڈیا پوسٹ کا اسکرین شاٹ لیا جاتا ہے اور پھر اسے متعلقہ شخص کی کمپنی اور اس ضمن میں اقدام کرنے والے افراد کو فارورڈ کیاجاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کمپنی اپنے ملازم کو نوکری سے برطرف کردیتی ہے اور پولیس قانونی کارروائی کرتے ہوئے اس شخص کو اپنی تحویل میں لے کر جیل میں ڈال دیتی ہے اور پھر اس کو ملک بدر کردیتی ہے۔ جس کے بعد اسے اپنی موجودہ ملازمت کی تمام مراعات سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے اور پھروہ کسی دوسری کمپنی میں ملازمت کرنے کا اہل نہیں رہتا۔
مثال کے طور پر منگلوروسے تعلق رکھنے والے ایک سول انجینئر کا معاملہ لیجئے۔ ایم این سی کمپنی میں یہ شخص گزشتہ دو دہائیوں سے ملازمت کررہا تھا۔لیکن پچھلے دنوں اسے نوکری سے برطرف کردیا گیا کیونکہ اس نے دہلی میں تبلیغی جماعت کے اجتماع پر اہانت آمیزمسیج پوسٹ کیاتھا۔کویت ہی میں دوسرا ایک شخص ہوٹل میں ملازمت کررہا تھااس کو بھی اسی وجہ سے نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔ ان دونوں کوہوائی سفر کی سہولت بحال ہوتے ہی ملک چھوڑ کر چلے جانے کا حکم دیا گیا ہے۔
اسلاموفوبیا میں مبتلا افراد کی جانچ اور نگرانی کی زد میں آنے والے صرف یہ دو افراد نہیں ہیں، بلکہ وہ خاتون بھی زد میں آگئی ہے جس کی ایک پرانی سوشیل میڈیا پوسٹ ازسرنو منظر عام پر آگئی جس میں اس نے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی تھی۔ایک اعلیٰ عہدے پر فائز اس خاتون کو بھی کمپنی نے ملازمت سے برطرف کردیا ہے۔ اب اس خاتون کی طرف سے اپنے جرم کے لئے معافی مانگنے کا آڈیو کلپ بھی وائرل ہوگیا ہے۔
خلیج میں ملازمت کررہے ایک شخص نے بتایا کہ ”رضاکار سائبر سپاہیوں کی ٹیم خلیج میں سوشیل میڈیا پرشائع ہونے والے اسلام مخالف تبصروں کی نگرانی کررہی ہے۔ وہ لوگ اسکرین شاٹ لیتے ہیں اور متعلقہ کمپنی کو ٹیاگ کرتے ہیں۔ ساتھ حکومت کے قانون نافذ کرنے والے محکمے کو بھی ٹیاگ کیا جاتا ہے۔اور کمپنی فوری طور پر تادیبی کارروائی کرتی ہے۔ہر ہندوستانی کو چاہیے کہ جہاں وہ رہتے ہیں ان ممالک کے قوانین کا پورا احترام کریں۔“
یہاں اڈپی کے ہریش بنگیرا کا ذکر بھی ضروری ہے جو اس وقت سعودی عربیہ کے دمام میں سلاخوں کے پیچھے پڑا ہے۔ اس کو تقریباً چھ مہینے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ ہریش بنگیرا(33سال) ایک ایئر کنڈیشن میکانک ہے۔دمام میں ملازمت کرتے ہوئے اس نے سعودی فرمانروا محمد بن سلمان اور مکہ معظمہ کے خلاف انتہائی ہتک آمیز چیزیں فیس بک پر پوسٹ کی تھی اور عالمی سطح پراس کی مذمت کی گئی تھی۔ملازمت سے برطرف کرتے ہوئے ا س کو جیل میں ڈال دیا گیا۔اب وہ ملک بدر کیے جانے کا انتظار کررہا ہے۔
اس بدلتے ہوئے منظر نامے کو دیکھ کرخلیجی ممالک میں قائم ہندوستانی سفارت خانے بھی حرکت میں آ گئے ہیں اور ہندوستانی باشندوں کو مسلم ممالک، وہاں کے حکمرانوں اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اہانت آمیز اور اشتعال انگیز تبصروں سے باز رہنے کی تلقین کررہے ہیں۔قطر میں ہندوستانی سفارت خانے کی طرف سے ٹویٹر پر ایک پیغام دیا گیاہے کہ ’یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ ہندوستان دشمن طاقتوں کی طرف سے جعلی شناخت بناکر ہماری قوم میں انتشار پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ برا کرم حقائق کوسمجھیں اور ناچاقی پیدا کرنے والی بدنیتی پر مبنی اس لہر میں ڈوب نہ جائیں۔اس وقت ہماری اولین ترجیح کووِڈ 19پر قابو پانا ہے۔