نئی دہلی،3؍مئی(ایس او نیوز؍ایجنسی)کمائی کے دو ذرائع ہیں... ایک ایمانداری (صحیح طریقے سے) اور دوسرا بے ایمانی (غلط طریقے سے)۔ اب زیادہ تر کمائی کا ذریعہ بے ایمانی والا ہو چکا ہے۔ اس کو غلط طریقہ کہہ لیجیے یا غیر قانونی طریقہ۔ کل ملا کر بات یہ ہے کہ محنت کسی کو کرنی نہیں ہے اور گھر بیٹھے بیٹھے لاکھوں کمانے کا خواب دیکھا جا رہا ہے۔ ایسے لوگ ہر حالت میں خود کو ڈھال لیتے ہیں۔ چاہے عام دنوں کی بات ہو یا موجودہ کورونا بحران کی۔ اس وقت بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو غیر قانونی طریقے سے کمانے کے لیے تیار ہیں۔ایک ایسا ہی حیران کرنے والا معاملہ سامنے آیا ہے۔
دراصل انٹرنیٹ پر غیر قانونی طریقے سے کورونا سے ٹھیک ہو چکے مریضوں کے خون کی فروخت شروع ہو گئی ہے۔ کورونا کے علاج اور ویکسین کے نام پر مریضوں کے خون کو ڈارک نیٹ پر فروخت کیا جا رہا ہے۔
آسٹریلیا نیشنل یونیورسٹی (اے این یو) کی ایک رپورٹ میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے۔ ڈارک نیٹ پر موجود سیلر یعنی فروخت کنندگان الگ الگ ممالک سے شپنگ کر کے بیرون ممالک میں ڈیلیوری کرا رہے ہیں۔
ڈیلی میل کی ایک رپورٹ کے مطابق زندگی بھر کے لیے قوت مدافعت بڑھانے کے دعوے کے ساتھ کورونا مریضوں کے خون کو لاکھوں روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے۔ ایک لیٹر خون کی قیمت 10 لاکھ روپے تک رکھی گئی ہے۔ حالانکہ خون کے ساتھ غیر قانونی طریقے سے پی پی ای، ماسک، ٹسٹ کِٹ سمیت دیگر سامان بھی زیادہ قیمتوں پر فروخت کیے جا رہے ہیں۔
آسٹریلیا کی نیشنل یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق کم از کم 12/ الگ الگ ڈارک نیٹ مارکیٹ پر یہ سامان فروخت ہو رہے ہیں۔اس سلسلے میں تحقیق کرنے والے روڈ براڈہرسٹ کا کہنا ہے کہ وبا کے وقت کچھ لوگ مجرمانہ طریقے سے کمائی کی کوشش کر رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ معاملہ بڑھ سکتا ہے۔ اس لیے سخت مانیٹرنگ کی ضرورت ہے تاکہ اسے بند کیا جا سکے۔