افسران کی مبینہ ملی بھگت سے بھٹکل میں حد سے بڑھ گئی پتھروں کے لئے غیر قانونی کھدائی۔ منڈلّی کی پہاڑی کو نابود کرنے کی ہورہی ہے تیاری
بھٹکل18/اکتوبر (ایس او نیوز) بھٹکل میں قانون کی پاسدار ی کرنے والے کئی اسسٹنٹ کمشنرز اور اور کئی تحصیلدار تعینات کیے جاچکے ہیں، لیکن یہاں پر چل رہے ریت اور پتھروں کے غیر قانونی کاروبار پر کسی نے بھی پوری طرح روک لگائی ہو، ایسا دیکھنے میں نہیں آیا۔ بلکہ عوام کا ااحساس تو یہ ہے کہ کچھ افسران کی ملی بھگت سے ہی یہ غیر قانونی دھندے پھلتے پھولتے جارہے ہیں۔
غیر قانونی پتھروں کے لئے کھدائی کرنے والے شروعات میں نجی ملکیت والی زمینوں پر کھدائی کی اجازت لیاکرتے ہیں پھر اس کے بعد اس سے متصل ریوینیو یا جنگلاتی زمینوں پر ناجائز قبضہ کرتے ہوئے وہاں پر اپنا کاروبار پھیلادیتے ہیں۔ کچھ بارسوخ افراد نے براہ راست جنگلاتی زمین پر ہی اپنا دھندا شروع کردیا۔ انہیں روکنے کا دم محکمہ جنگلات کے افسران میں دکھائی نہیں دیتا۔ محکمہ جنگلات کے افسران تو اپنی طاقت اور قانون کی پاسداری کا رعب صرف غریب لوگوں کے چھوٹے موٹے گھروں کو توڑنے کے لئے محفوظ رکھتے ہیں۔ بھٹکل میں ایک مرتبہ وسنت ریڈی نامی ایک آئی اے ایف ایس آفیسر کی تعیناتی ہوئی تھی۔ اس وقت انہوں نے پہاڑیوں کی غیر قانونی کھدائی پر روک لگانے کی کوشش کی تھی۔ ان کے رہتے ہوئے کچھ عرصے کے لئے اس کاروبار کی رفتار تھوڑی دھیمی ہوگئی تھی۔
سدارامیا کی قیادت میں ریاستی حکومت نے مائننگ کی پالیسی میں تبدیلی کی تھی۔صرف آن لائن ہی اجازت لینے کی شرط کے علاوہ کئی دیگر ضوابط وضع کیے گئے تھے۔اُس وقت ضلع ڈپٹی کمشنر اجول کمار نے قانون کو سختی کے ساتھ لاگو کرنا شروع کیاتھااوراس تعلق سے تمام تحصیلداروں کو سخت ہدایات جاری کردی گئی تھیں۔اسی روایت کو ان کے بعد آنے والے ڈی سی نکول نے بھی جاری رکھاتھا۔غیر قانونی مائننگ پر قابو پانے کے لئے تعلقہ وار کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں، جس میں متعلقہ علاقے کے تحصیلدار اور پی ڈی او شامل ہیں۔ڈی سی سے لے کر اے سی، تحصیلدار اور پی ڈی او جیسے عہدوں پر افسران کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ نئے چہرے آتے جاتے اور کرسیوں کو پُر کرتے رہتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج ہر طرف نہ صرف یہ غیر قانونی کاروبار بغیر روک ٹوک کے جاری ہے، بلکہ اس میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
بھٹکل اور اطراف میں پہاڑوں کو کاٹ کر نکالے گئے لال پتھروں کی بہت زیادہ مانگ رہتی ہے۔پچھلے کچھ برسوں سے یہ کام بھٹکل کے مٹھلّی، بینگرے وغیرہ میں بے روک ٹوک جاری تھا۔ان میں سے کتنے لوگوں کے پاس سرکاری محکمہ سے حاصل کیاگیا اجازت نامہ تھا اور کس کے پاس نہیں تھا یہ کسی کوبھی نہیں معلوم۔ عوام کو بس اتنا پتہ ہے کہ جہاں پتھروں کی کھدائی ہوتی ہے وہاں پر وقفے وقفے سے کچھ سرکاری اہلکار آتے ہیں اور اپنی جیب گرم کرکے چلے جاتے ہیں۔لہٰذا پتھروں کو غیر قانونی طور پر نکالنے اور اس کی تجارت کرنے کا کاروبار اس قدر حد سے بڑھ گیا کہ اب ان علاقوں میں پہاڑوں کا نام و نشان ہی مٹ گیا ہے۔ جہاں پہاڑیاں تھیں اب وہاں سوائے بڑے بڑے گڈھوں کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
ظاہر سی بات ہے کہ جب دھندا بہت ہی زیادہ فائدہ مند ہوگا تو پھر اس کے لئے نئے علاقے تلاش کیے جائیں گے۔ اس وجہ سے پتھروں کے لئے غیر قانونی کھدائی کرنے والوں نے اب بھٹکل کے منڈلّی علاقے میں واقع ایک وسیع پہاڑی کو اپنا نشانہ بنایا ہے۔ حالانکہ کسانوں اورمچھیروں کی آبادی سے گھرے ہوئے اس علاقے میں اس سے قبل پتھروں کے کسی غیر قانونی کاروباری نے قدم رکھنے کی ہمت نہیں کی تھی۔چار پانچ سال اس علاقے میں جے سی بی مشینیں لانے کی کوشش کی گئی تھی تو عوام نے رکاوٹیں کھڑی کرکے انہیں واپس جانے پر مجبور کردیا تھا۔مگر اب گزشتہ ایک ماہ سے اس پہاڑی پر پتھروں کو نکالنے کا کام چپکے چپکے شروع کیا گیا ہے۔
یہاں پتھروں کو نکالنے کے محکمہ معدنیات سے کس نے اجازت حاصل کی ہے اس کی خبر کسی کو بھی نہیں ہے۔ ہر دوسرے دن ایک نیا کاروباری یہاں پہاڑی پر کھدائی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اسکولی بچوں کے آنے جانے والے تنگ راستے پر صبح پانچ بجے سے پتھروں کے ٹرک دوڑنے لگتے ہیں۔کوئی سرکاری افسر یا کارندہ اس مقام پر کھدائی روکنے یا اس سلسلے میں تفتیش کرنے کے لئے نہیں آرہا ہے۔ جانوروں کے چارے سے بھرپور اس پہاڑی کو ختم کرنے کی جو تیاری چل رہی ہے اس کے خلاف مقامی کسان اور گؤ پریمی بھی کوئی آواز اٹھاتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ انکولہ میں شہری ہوائی اڈے کی تعمیرکے سلسلے میں رکاوٹ پید اہونے کے بعد بھٹکل منڈلّی کی اسی پہاڑی پر ہوائی اڈہ تعمیر کرنے کی مانگ لے کرعوامی مفاد کی عرضی کے ساتھ ہائی کورٹ کے دروازے پر دستک دی جاچکی ہے جسے عدالت نے حکومت کے فیصلے پر چھوڑ دیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ انکولہ میں ہوائی اڈے کی تعمیر بالکل ناممکن ہونے کی صورت میں حکومت اسی پہاڑی کا انتخاب کرے اور بھٹکل و اطراف کے عوام شہری ہوائی اڈے کا جوخواب برسوں سے دیکھ رہے ہیں وہ سچ ہوجائے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر افسران نے غیر قانونی طور پر اس پہاڑی کو ختم کرنے سے نہیں روکا تو پھر کل ہوائی اڈے کا منصوبہ بن جائے تو پہاڑی کو واپس کیسے لایا جاسکے گا؟!