کرناٹکا کے سابق جج نے کہا؛ اگر مسلمان چاہتے تو مغل دور کے دوران ہندوستان میں ایک بھی ہندو باقی نہ رہتا
وجئے پور،3؍دسمبر (ایس او نیوز؍ایجنسی) کرناٹک کے ایک ریٹائرڈ ضلعی جج وسنتھا مولسولگی نے کہا کہ ہندوستان میں ہندو اس لئے زندہ ہیں کہ مسلمانوں نے انہیں رہنے دیاہے۔ مولسولگی نے کہاکہ ”اگر ہندو وں کی مسلمان مخالفت کرتے تو مغل دور میں ایک بھی ہندو باقی نہ رہتا۔
وہ تمام ہندوؤں کو قتل کردیتے۔ حالانکہ مسلمانوں نے اس ملک میں پانچ سوسالوں تک حکمرانی کی‘ انہوں نے سوال کیا کہ اس کے باوجود آج ملک میں مسلمان اقلیت میں کیوں ہیں؟“۔ ریاست کے شہر وجئے پورا میں منعقدہ ایک سمینار جس کا عنوان تھا ”کیا ائین کے مقاصد پورے ہوگئے ہیں؟ سے خطاب کے دوران مذکورہ ریٹائرڈ جج نے یہ بیان دیا۔
یہ بیان سوشیل میڈیاپر وائیرل ہورہا ہے۔ اس سمینار کو راشٹریہ سوہاردا ویدیکے اور دیگر تنظیموں نے جمعرات کے روز منعقد کیاتھا۔مذکورہ جج نے کہاکہ ”جو لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے ایسا کیا ویسا کیا تو انہیں یہ جاننا ضروری ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حکمرانی کی700سال کی تاریخ کیاکہتی ہے“۔
انہوں نے مزیدکہاکہ ”مغل بادشاہ اکبر کی بیوی ایک ہندو رہی اور انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا۔ صحن کے اندر اکبر نے کرشنا مند ر تعمیر کی تھی۔ لوگوں کو یہ بھی دیکھنا چاہئے“۔
انہوں نے مزیدکہاکہ ”ہندو دیوتائیں بھگوان رام اور بھگوان کرشنا، ناول کے محض کردار ہیں۔ وہ تاریخی شخصیتیں نہیں ہیں“۔
ریٹارئرڈ جج نے مزیدکہاکہ بادشاہ اشوک حقیقی تاریخی شخصیت تھے۔وسنتھا مولسولگی نے کہاکہ ”اتراکھنڈ میں شیولنگ پر بدھا کی تصویر کی عکاس اتارا گیاہے۔
بدھ مت کے ماننے والوں نے اس ضمن میں ایک شکایت درج کرائی ہے۔ منادر کی تعمیر سے یہ بھی یہ کہا جاتا رہا ہے کہ منادر کو مساجد میں تبدیل کردیاگیاہے‘ بادشاہ اشوک نے 84,000 بدھا وہاراس تعمیر کئے تھے۔
وہ کہاں چلے گئے؟وقفہ وقفہ سے اس کام کو انجام دیاگیاہے۔کیایہ بڑا مسئلہ نہیں ہے؟“۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ ”ائین کے مقاصد واضح اور درست ہیں۔شکوک وشبہات پیدا ہورہے ہیں کیونکہ نظام ائین کے مقاصد کو پورا کرنے میں ناکام ہورہے ہیں۔ اس کو درست کرنے اورناکامی کو ختم کرنے میں نوجوان نسل کو اس سمت میں چوکنا رہنے اورفعال ہونے کی ضرورت ہے“۔
انہوں نے کہاکہ ”یہا ں پر 1999کا ایک قانون ہے تاکہ منادروں‘ گرجاگھرو ں او رمساجد کو جوں کا توں رکھا جائے۔ اس کے باوجود ضلع عدالت اس ضمن میں اس کے برعکس فیصلہ دے رہا ہے۔
وہ اس بات پر قائم رہے کہ ”ہمیں عصری منظرکے بارے میں سوچنا ہوگا۔ہمیں واپس نہیں جاناچاہئے۔ہمیں اپنی آواز کو صحیح طریقے سے اٹھانا ہے“۔
ایک اورریٹائرڈ جج ارالی ناگ راج نے کہا کہ رائے دہی کے تمام امیدواروں کے ذریعہ ایک حلف نامہ لینا چاہئے کہ وہ انتخابات جیتنے کے بعد پارٹی نہیں بدلیں گے۔
انہوں نے مزیدکہاکہ ”اس طرح کا ایک قانون لانے کی ضرورت ہے۔ آزاد ی سے قبل ہندوستان میں حب الوطنی کی سطح بہت عظیم تھی۔ اس وقت خود غرضی نے اس کو اپنی لپیٹ میں لے لیاہے“۔