ہجوم کے ہاتھوں تشدد کا فروغ بہت خطرناک۔۔۔۔۔۔از:راجیش جوشی

Source: S.O. News Service | By Shahid Mukhtesar | Published on 4th July 2017, 12:02 PM | اسپیشل رپورٹس |

پاجامہ قمیض پہنے، ہاتھ میں ڈبا لیکر جنگل کی طرف 'کھلے میں رفع حاجت' کے لیے جانے والے دیہاتی آدمی کے پیچھے کچھ خواتین اور لڑکیاں دوڑ رہی ہیں۔

ان سے بچنے کے لیے وہ خوفزدہ ہوکر بھاگتا ہے لیکن پھر یہ خواتین اسے چاروں طرف سے گھیر لیتی ہیں اور ٹوائلٹ کے اندر جانے پر مجبور کرتی ہیں۔ پیچھے سے گانے کی آواز آتی ہے۔۔۔۔ دروازہ بند تو بیماری بند۔

کھلے آسمان تلے پیشاب یا پاخانہ کرنے کے خلاف انڈین حکومت کی طرف سے جاری اس ویڈیو فلم کا پیغام واضح ہے۔
ایک ایسی ہی ذاتی کمپنی کی صفائی مہم والے اشتہار میں جھاڑی کے پیچھے رفع حاجت کرنے والے گاؤں کے مردوں کا خواتین چاروں طرف سے محاصرہ کر کے انہیں شرمندہ کرتی ہیں اور ان میں سے ایک ان پر پتھر بھی پھینکتی ہے۔

ہریانہ میں میوات کے علاقے کے ڈپٹی کلیکٹر منی رام شرما تین چار بزرگوں کو پولیس کی جیپ کے سامنے مجرموں کی طرح زمین پر بیٹھا کر فوٹو بنواتے ہیں اور سوشل میڈیا پر لکھتے ہیں: 'آج ان کی اکڑ ڈھیلی کرنی تھی اور تسلّی سے کر بھی دی۔'

راجستھان کے ضلع پرتاب گڑھ میں شہری انتظامیہ کے ملازمین صبح صبح راؤنڈ پر نکلتے ہیں اور کھیتوں میں رفع حاجت میں نکلنے والی خواتین کی کیمرے سے تصویر لیتے ہیں۔ اس کی مخالفت کرنے والے ظفر حسین کو مار مار کر ہلاک کردیا جاتا ہے۔

یو پی کے ضلع فیروز آباد میں سرکاری ملازمین گاؤں والوں کو کھلے آسمان تلے پاخانہ کرنے والوں سے ڈنڈے کے زور پر نمٹنے کی تربیت دیتے ہیں۔ اور پھر ان کے رضا کاروں کا ہجوم روزانہ صبح ہاتھوں میں ٹارچ اور ڈنڈے لے کر سیٹیاں بجاتا ہوا جنگل یا جھاڑیوں میں رفع حاجت کرنے والوں کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔

ملک میں آئے دن جگہ جگہ پر گاؤ رکشا کے نام پر مسلمانوں کی لِنچنگ کا تعلق بظاہر صفائی مہم سے نہیں ہے لیکن اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں سماجی زندگی میں ہجوم کا عمل دخل بڑھتا جائے گا۔

سماج میں شراکت کے نام پر لوگوں کو اس کے لیے تیار بھی کیا جا رہا ہے۔

اگر آپ رفع حاجت کے لیے کھلے میدان میں جاتے ہیں تو ہجوم آپ سے نمٹ لے گگ، اگر پٹائی نہیں تو شرم سار ضرور کرے گا۔ اور ہجوم کو یہ معلوم ہے کہ ان کی مخالفت کرنے والوں کی اکڑ کو ڈھیلی کرنے کے لیے ڈپٹی کلیکٹر تیار ہے۔

اگر آپ گائے بھینس جیسے مویشیوں کا کاروبار کرتے ہیں اور مسلمانوں جیسی ٹوپی داڑھی ہے تو ہجوم آپ کو بچ کر نکل جانے کی اجازت نہیں دے گا۔

ہجوم کو معلوم ہے کہ اس طرح کے قتل کو کبھی حادثہ تو کبھی جذبات میں اٹھایا گيا قدم بتانے کے لیے وزرا، وزيراعلیٰ اور ارکان پارلیمان تیار بیٹھے ہیں۔

عوام کو متحد کر کے سیاسی جدوجہد کرنا اور کامیاب ہونا جمہوری سیاست کا ایک اہم حصہ ہے۔

لیکن اپنی بات کو منوانے کے لیے عوام کو ہجوم میں بدلنے اور ہجوم کو ایک خطرناک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا راستہ اس منزل کی طرف لے جاتا ہے جہاں اکثریتی طبقہ جمہوریت کو غیر ضروری اور ناقابل قبول تصور کرنے لگتا ہے۔ پھر ان کے لیے عدالت، آئین اور قانون کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا ہے۔

یہ وہی مقام ہے جہاں ایک مقبول رہنما اتنا طاقتور بن جاتا ہے کہ اسے ایک آمر بننے میں دیر نہیں لگتی ہے۔

اس کے سامنے پھر نہ تو آئین بڑا ہوتا ہے اور نہ ہی قانون کیونکہ برسوں کی محنت سے تیار کی گئی مشتعل ہجوم اپنے رہنما کو ہر شخص سے عظیم تر سمجھنے لگتی ہے اور اگر کوئی اس عظیم شخصیت سے اتفاق نہ کرتا ہو تو وہ اسے غدار سمجھنے لگتی ہے۔

30 اور 40 کے عشرے میں جرمنی اور اٹلی میں یہی ہوا تھا اور یہی ساٹھ کی دہائی میں چین میں ہوا جب ثقافتی انقلاب کے دوران ماؤ زے تنگ نے ریاست کی طاقت تقریباً مکمل طور پر ریڈ گارڈز کو سونپ دی تھی۔

یہ ریڈ گارڈز عوامی جگہوں پر لوگوں کو سزا دینے لگے۔ اس دور میں چین کے عوام پر ماؤ کا اثر اتنا زیادہ تھا کہ جب انھوں نے یہ کہا کہ پرندوں نے چین کی فصل کو برباد کر کے رکھ دیا ہے تو لوگوں نے لاکھوں کی تعداد میں پرندوں کو مار دیا تھا۔

کچھ تجزیہ کار اس وقت کے چین کا مقابلہ آج کے بھارت سے کر رہے ہیں۔

آزاد انڈیا میں ہجوم کو بطور ہتھیار کے استعمال کرنے کی شاید سب سے بڑی مثال بابری مسجد کا واقعہ ہے۔

بی جے پی کے رہنما لال کرشن اڈوانی کی قیادت میں کارسیوکوں کی بھیڑ ایودھیا میں جمع ہوگئی اور اس کے بعد ان کارسیوکوں نے جو کچھ کیا وہ جگ ظاہر ہے۔ ان کے سامنے مرکزی حکومت لاچار بیٹھی رہی، پولیس انتظامیہ سب کچھ دیکھتی رہی، اور یہاں تک کہ سپریم کورٹ بھی کچھ نہ کر سکی۔

کھلے میدان میں پاخانے کے لیے جانے والے دیہاتی شخص کو زبردستی بیت الخلا میں گھسنے پر مجبور کرنے والے ٹی وی کے سرکاری اشتہارات کو دیکھ کر اگرچے ابھی آپ صرف مسکرا دیتے ہوں، لیکن سماجی طور پر اہمیت رکھنے والے سوالوں کو ہجوم کے ذریعے حل کرنے کے خطرات کو ابھی سے سمجھنا جمہوریت کی خیر کے لیے بہت ضروری ہے۔

ایک نظر اس پر بھی

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...