اسپتالوں میں کورونا سے مرنے والوں کے ورثاء سے کیا جارہا ہے بھاری رقم کا مطالبہ، خاطیوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ
بنگلورو،28/جون (ایس او نیوز) ایک طرف کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے دوسری طرف ان کی آخری رسومات ادا کرنا ان کے ورثاء کے لئے درد سر بن گیا ہے۔
کورونا سے مرنے والوں کی لاشیں اسپتال سے قبرستان یا شمشان لے جانا بھی بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ رشتہ داروں پر اسپتال سے ہی اخراجات کا بوجھ پڑنے لگتا ہے۔ ایمبولینس میں لاشیں رکھنے والوں، ایمبولنس ڈرائیور کو پھر قبرستان یا شمشان تک لاش لے جانے والوں کو ایک موٹی رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔
اطلاع ملی ہے کہ بنگلورو شہر کے وکٹوریہ اسپتال، بورنگ اور کے سی جنرل اسپتال میں کووڈ۔19سے مرنے والوں کی لاشوں کو پہنچانے کے لئے ایمبولینس ڈرائیور فی کس 20تا 25/ ہزار روپئے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی آخری رسومات کی ادائیگی کے لئے 15/ تا 18/ ہزار روپئے کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے۔
ذرائع کے مطابق بنگلورو شہر کے ملیشورم میں واقع کے سی جنرل اسپتال میں گوری بدنور سے تعلق رکھنے والے ایک 48/ سالہ شخص کی کورونا سے موت ہوگئی۔ اس لاش کو ایمبولینس کے ذریعہ گوری بدنور پہنچانے کے لئے اسپتال کے ملازمین اور ایمبولینس ڈرائیور نے 15/ ہزار روپئے کا مطالبہ کیا۔ اگر مرنے والے کے ورثاء مالدار ہوں تو یہ بوجھ برداشت کر لیں گے لیکن غریب اس نازک حالت میں اتنی بڑی رقم کہاں سے جٹا پائیں گے؟
پتہ چلا ہے کہ یہ لاش گوری بدنور لے جانے کے لئے ایک مسجد میں چندہ اکٹھا کر کے ایمبولینس والوں کی رقم ادا کی گئی۔ایسا مطالبہ صرف مسلمانوں سے نہیں بلکہ ہندوؤں سے بھی کیا جارہا ہے۔ ایمبولینس ڈائیورس یہ کہتے ہوئے لاشوں کے ورثاء سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ لاش کو اٹھانے لے جانے ہمیں پی پی ای کٹ چاہئے اور کیسے بھی آپ کو ایمبولینس کے چارجس ادا کرنا ہی چاہئے، یہ سب ملا کر اتنی رقم ادا کرنی ہوگی۔
حکومت یہ دعویٰ کررہی ہے کہ کووڈ۔ 19سے مرنے والوں کو لے جانے اور آخری رسومات ادا کرنے تک حکومت متعلقہ اسٹاف کو تمام سہولتیں فراہم کرتی ہے تو ورثاء سے اتنی بڑی رقم کا مطالبہ کیوں کیا جاتا ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ متعلقہ محکمہ کو اس غیر قانونی مطالبہ کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہئے۔
بعض لوگوں نے بتایا کہ شہر بنگلورو میں کئی رضا کار ادارے اور افراد کووڈ سے مرنے والوں کے کفن دفن کا مفت انتظام کررہے ہیں۔ متاثرین کو ان رضاکار اداروں اور سماجی کارکنوں سے رابطہ کرکے مسئلہ حل کرنا چاہئے۔