ہوشیار، خبردار۔۔۔۔۔۔۔از قلم : مدثر احمد
جب ہندوستان کی سرزمین پر مغل ، نواب اور نظام حکومت کررہے تھے اس وقت انکے پاس جو مال و دولت اور خزانے تھے انہیں اگر وہ صحیح طریقے سے استعمال کرتے تو آج کے مسلمان کسی کی مدد کے طلبگار نہ ہوتے اور مسلمان قوم ایک عزت دار قوم بن کر اس ملک میں دوسروں پر حکومت کرتی یا کم از کم حکومتیں بنانے میں اہم رول ادا کرتی لیکن ہمارے تاریخی حکمرانوں نے تعلیمی ادارے، تحقیقی مراکز،سائنس و ٹکنالوجی کی تعلیم کو عام کرنے کے بجائے ناچ گانے، موسیقی، طوائفوں کے نام محلات، قبریں اور قلعے بنا کر نہ صرف قوم کا پیسہ برباد کیا بلکہ انکے بعد کی نسلوں کو بھی محتاج بنا کر چھوڑدیا اور آج بھی ہم حکومتوں کے محتاج ہیں۔ ہم نے تاریخ کی کوتاہیوں سے سبق نہیں لیا اور آج پھر اسی تاریخ کو دہرا رہے ہیں۔ جس وقت انگریزوں نے اس ملک پر قبضہ کیا تھا اس دوران یہاں کے مسلم مالداروں اور حکمرانوں کو لوٹ لیا تھانوں مسلمان معاشی طور پر تباہ ہوگئے تھے، ان کی یہ بربادی آزادی چالیس پچاس سالون بعد بھی جاری رہی لیکن جب ہندوستانی مسلمانوں کے لئے خلیجی ممالک کے دروازے کھلے اور ان کے ہاتھوں میں درہم وریال کھیلنے لگے، عرب ممالک میں مسلمان نوکریوں کے ساتھ ساتھ تجارت کرنے لگے اس وقت کہیں جاکر مسلمانوں کی مالی حالات درست ہونے لگی اور آج کے مسلمان پہلے سے کافی حد تک اچھی حالت میں ہیں مگر یہاں پھر افسوس کا مقام ہے کہ پٹرو ڈالرس کے ذریعے ہندوستان میں ریئل اسٹیٹ، کمپنیوں میں سرمایہ داری کرنے والے مسلمان آج پھر ایک دفعہ زوال کی جانب جانے لگے ہیں۔ آج بڑی بڑی بلڈنگ بنانا انکا شوق بن گیا ہے، لکژری کاروں میں گھومنا انکی عادت بن گئی ہے، اسٹیجوں پر چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے واہ واہی لوٹنا انکا شیوہ بن گیا ہے اور ہر کام کے عوض تہنیت لینا اور گل پوشی و شال پوشی کروانا انکی زندگی کا حصہ بن گیا ہے۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کی رحمت کو حرام کاری و بدکاریوں میں پانی کی طرح بہار ہے ہیں اور ان عادتوں کو وہ امیروں کی زندگی کہہ رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی تعریفیں کروانے کےلئے لاکھوں روپئے کے مشاعرے، آرکسٹرا، قوالیاں اور کھیلوں کے مقابلے کرواتے ہیں اور یہاں انہیں قائد قوم، قائد ملت، نبیل امت، ہمدرد ملت، حبیب قوم جیسے القاب سے پکارا جاتا ہے اور انکا سینہ ان القاب کو سن کر پھول جاتا ہے اور یہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ انہیں یہ القاب انکے چندوں کے عوض مل رہے ورنہ انہیں کتا بھی نہیں سونگھتا۔ دراصل قائد قوم ، ہمدرد ملت اور نقیب قوم وہی لوگ ہین جو ملت کے لئے، ملت کے مستقبل کی بقاء و تحفظ کے لئے کچھ کام کریں۔ عوام کی تفریح کا کام تو طوائفوں اور فحاشائوں کا ہے اور وہ تفریح کا کام کر لینگے۔ آج قوم کے لئے بہترین و اعلٰی تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے، اچھے اسپتالوں کی قوم محتاج ہے اور قوم کی ترجمانی کرنے اور قوم و ملت پر اٹھنے والی آواز کو دبانے کے لئے ایک طاقتور ہتھیار جسے ہم اور آپ میڈیا کے طور پر جانتے ہیں اسے عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔ یہ چیزیں اگر ملت کے پاس آجائیں تو یقیناً وہ دن دور نہ ہوگا جب ملت کسی کی محتاج نہ ہوگی اور یہی چیزیں آنے والی نسلوں کے لئے اہم سرمایہ و بیش قیمتی سامان ثابت ہوگا۔ قوم کے مالداروں و امیروں کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ورنہ ہماری نسلیں جن القاب سے یاد کرینگی اسکا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔